ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2008 |
اكستان |
|
کاذریعہ بن سکی، اِس لیے میرے بھائیومیںآ پ کے اساتذہ کی موجودگی میں جوآپ کے باپ ہیں جوآپ کی تربیت کررہے ہیں یہ آپ کے معلم ہیں ایک ماں باپ وہ ہیں جن سے آپ نے جنم لیاہے اورایک ماں باپ وہ ہیں آپ کے جن کے ہاں آپ خوردو نوش کررہے ہیں زندگی کے دن اورراتیںآپ گزاررہے ہیں تواِ ن کے زیر نگرانی جہاں آپ آئے ہیں میں پہلی بات آپ سے یہ کہناچاہوں گا کہ آپ معاشرے کے اندراِن لوگوں سے اپنے آپ کوکمترنہیںسمجھیں۔ یہ غربت یہ دن یہ ابھی آپ کوآنکھ بندکرکے دوبارہ کھولنے کی اِتنی ہی مدت ہے اِس کی۔ پانچ سات سال آٹھ سال کیادَورانیہ ہے پچاس سالہ زندگی جوحضرت کی اور ہماری ہے اِس میں اِس کی کوئی حیثیت نہیں توپہلی بات یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کودُنیاکے لوگوں کے سامنے کمترنہیں سمجھیں جب تک آپ میں خودی نہیں ہوگی جب تک آپ میں سیلف کونفیڈینس نہیں ہوگاکہ آپ کی حیثیت اورپوزیشن کیاہے اُس وقت تک آپ اپنے اُس نظریہ کواوراُس مؤقف کواوراُس چیزکوآپ دُوسروں کے سامنے کھل کربیان نہیں کرسکتے جس طرح طالب علم ہوتاہے اوراساتذہ ہوں تووہ بات کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے اورجودِل کے اندرکی بات ہوتی ہے وہ کہہ نہیں پاتاکیونکہ اُس کواعتمادنہیں ہوتا کہ میری بات شاید غلط ہوگی حالانکہ کہنے میں کوئی حرج نہیں اُستاد جو ہے وہ آپ کی اِصلاح کے لیے ہی ہے۔ یہیں توہم نے سیکھناہے تو بات یہ تھی کہ جب تک آپ کی زندگی میں خوداعتمادی پیدانہیں ہو گی توآپ کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات نہیں کرسکتے اورجب تک آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنے کا آپ کے اندر ڈھنگ نہیں آئے گاحوصلہ پیدانہیں ہوگادُنیامیں جتنی بھی باطل قوتیں ہیں اُن کی آپ سرکوبی نہیں کرپائیں گے اُن کوتوڑنے کے لیے اُن کوکچلنے کے لیے دُنیاسے اُن کانام و نشان مٹانے کے لیے آپ کے اندرخوداعتمادی ہونی چاہیے دُنیاکی طرف آپ نہ دیکھیں کہ بھئی ہمیں کیسے ملے گی میں آپ کووثوق کے ساتھ کہہ سکتاہوں میں ایک طالب علم ہوں ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتاہوں لیکن آج یہ الحمدللہ جب میں انگلینڈ گیاتھادس سال پہلے میں ڈرائیونگ نہیں جانتاتھاتو لوگ کہتے تھے کہ آ پ گاڑی اور مدرسوں میں جاکر پہنچتے ہیں بڑی بڑی میٹنگوں میں تو وہ لوگ آپ کیسے ڈیل کرتے ہیں؟ میں نے کہادُنیاکے بڑے بڑے اَدیب بھی اُس مجلس میں ہوتے ہیں جن کی دولت اُن کوبھی شایدپتہ نہ ہولیکن کبھی بھی ایک منٹ کے لیے بھی