ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2008 |
اكستان |
|
کا ٹوٹل بیس گرام وزن بنتا ہے دس کروڑ چیونٹیوں کے دماغ کا ملاکے وزن کرو تو بیس گرام تو ایک چیونٹی کے اَندر کتنا دماغ ہوتا ہے لیکن آپ نے اُس کو دیکھا کہ اُس نے کبھی قطار توڑی تو آپ روزانہ قطار کتنی توڑتے ہیں اَڈّوں پر کتنی لڑائیاں ہورہی ہوتی ہیں وہ اُن کو اُترنے ہی نہیں دیتے جنہوں نے اُترنا ہوتا ہے اُن کو بھی نہیں اُترنے دیتے وہ اُتریں گے تو تم اَندر جاؤگے نا وہ اُن کو دھکّے دے کر پیچھے کررہے ہوتے ہیں کہ میں چڑھ جاؤں اَب چیونٹی کبھی قطار سے اِدھر اُدھر گئی نظر کچھ نہیں آتا سیدھی کیسے جارہی ہے اور پھر اَندھیروں میں انڈے پھٹے اُس میں پہرے دار بھی ہیں اُنہیں پتہ ہے ہمیں پہرا دینا ہے اُس میں ملکہ کے محافظ ہیں اُنہیں پتہ ہے ہمیں وہاں جانا ہے اُس میں بچوں کی نگرانی کرنے والے ہیں وہ اپنی ڈیوٹی پر چلے جاتے ہیں اُن میں غلہ ڈھونڈنے والے ہیں وہ اپنی ڈیوٹی پر چلے جاتے ہیں اُن میں فوج ہے وہ اپنے مورچے سنبھال لیتی ہے اُس میں پولیس ہے وہ اپنے مورچے سنبھال لیتی ہے اُس میں انجینئر ہیں جو سارے گھر کی نگرانی کرنا سوراخوں کو بحال رَکھنا اور پتے لاکر رکھنا تاکہ اَندر آکسیجن بھی رہے سردیوں میں وہ گرمائش کا کام بھی دیں اَب آپ چیونٹی دیکھو اور چیونٹی کے کام دیکھو رَبُّنَا الَّذِیْ اَعْطٰی کُلَّ شَیْئٍ خَلْقَہ' ثُمَّ ھَدٰی رَب وہ ہے جس نے ہر چیز کو بنایا اور اُس کو ہدایت دی مقصد کی ہدایت بھی حاصل ہے کُلّ قَدْ عَلِمَ صَلٰوتَہ' وَتَسْبِیْحَہ' اور ضرورتِ زندگی کی ہدایت بھی حاصل ہے کہ اپنا علاج بھی جانتے ہیں دَوا بھی جانتے ہیں غذابھی جانتے ہیں سب کچھ جانتے ہیں ۔ یہاں ہندوستان میں تو بندرکی پوجاہوتی ہے،ایک علاقہ میں بندرزیادہ تھے تو مسلمان بڑے تنگ تھے اُن کوماربھی نہیں سکتے تھے و ہ آکرکبھی اُن کے ٹوکرے میںسے روٹیاںنکال لینی کبھی آٹا کھینچ لیناکبھی کچھ کھالیناوہ بڑے تنگ پڑگئے تو مسلمانوں نے آپس میں مل کرسکیم بنائی اُنہوں نے روٹیوں میں زہر ملادیا اور روٹیاںپکاکرچھت پرڈال دیں تو جب حسب ِمعمول بندرآئے تو آگے خلافِ معمول دسترخوان روٹیاں سجی ہوئیں توساروں نے ایک دُوسرے کوایسے دیکھاکہ یہ آج ہمارااِکرام کیوں ہورہاہے یہ کیاچکرہے؟ کسی ایک بندر نے کچھ نہیں کھایا توسارے واپس چلے گئے تھوڑی دیر کے بعدکیادیکھاکہ وہ سارے بندرآرہے ہیں اور اُن کے ساتھ چارموٹے موٹے بندر پروفیسر ٹائپ بوڑھے بوڑھے وہ چار اُن کے پروفیسرآرہے ہیں اُنہوں نے آکر روٹیوں کو دیکھا پھر توڑاپھرسونگھا پھر وہیں چھوڑ دیاکچھ نہیں کہاسب واپس چلے گئے۔