ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2008 |
اكستان |
مجھے بتاؤ تو سہی مجھے کیا کھانا ہے مجھے کیا پینا ہے مجھے کیسے کھانا ہے مجھے کیا نہیں کھانا میرا پرہیز تو بتاؤ میری غذا تو بتاؤ، نہ اماں سے پوچھا نہ اَبّا سے پوچھا اور اپنا علاج بھی اپنا پرہیز بھی جانتا ہے غذا بھی جانتا ہے دَوا بھی جانتا ہے دوست بھی جانتا ہے دُشمن بھی جانتا ہے بلی کو دیکھتے ہی بھاگ کر اماں کی طرف دُوڑتا ہے اُسے کس نے بتایا کہ تجھے کھانے والی چیز ہے یہ۔ آج صبح گھر سے نکلا سیر کرنے سامنے نظر پڑی بلی پر تو بھاگا واپس کس نے کہا تھا کہ بلی کھاتی ہے کیسے پتہ چلا اَعْطٰی کُلَّ شَیْئٍ خَلْقَہ' ثُمَّ ھَدٰی ہر چیز کو پیدا کیا ہدایت دی کسی پرندے کو اُڑنا ماں باپ نہیں سکھاتے سانپ کو ڈسنا ماں نہیں سکھاتی باپ نہیں سکھاتا زہر بناناکوئی بھی نہیں سکھاتا یہ علم وہ پیدائشی طور پر لے کر آتے ہیں یہ جو کوئل ہے یہ بڑا سُست پرندہ ہے یہ اپنا گھونسلا بناتی ہی نہیں یہ اپنے انڈے دیتی ہے کوے کے گھونسلے میں اور پانچ چار انڈے پڑے ہوں تو ایک انڈا اپنا دے کر ایک انڈا کوے کا نیچے پھینک دیتی ہے تو چار پورے کے پورے ہیں اُن کو شک بھی نہیں پڑتا کہ اِس میں کوئی اور شامل ہوگیا پھر اُس کے طواف کرتی رہتی ہے۔ اور اللہ کا نظام یہ ہے کہ کوئل کا انڈہ جلدی پھٹتا ہے کوے کا دیر سے پھٹتا ہے تو جوں ہی یہ کوئل کا بچہ نکلتا ہے تو نکلتے ہی پر مارکر تینوں انڈے نیچے پھینک دیتا ہے کلّا میں نوں ہی پالوتم وہ اُس کو پالتے رہتے ہیں وہ تھا کالا کوا بھی کالا اور کوئل بھی کالی اُن کو شروع میں پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہم کس کو پال رہے ہیں وہ اِس سارے دَورانیے میں کوئل وہ جگہ نہیں چھوڑتی۔ یہاں تو ماحول ہے نا جو درخت کوئی نہیں ہے تو میں اپنے دیہات میں جاتا ہوں تو میں یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں کہ جہاں کوئل کوے کو نظر آئے تو اُس کا پیچھا شروع کردیتا ہے اُس کو مارنے دَوڑتا ہے اُس کو دیر کے بعد پتہ چلتا ہے میں نے تو کوئل کی خدمت کی تھی یہ آپ کو مثالیں دے رہا ہوں کہ اللہ ساری کائنات غیر انسان کیسے پڑھی لکھی ہوتی ہے کیسے تعلیم یافتہ ہوتی ہے اور کسی سے وہ علم نہیں لیتی اور اپنے علم میں وہ کامل ہوتے ہیں ذرا بھی اُس میں کمی بیشی نہیں ہوتی۔ انسان اَب اِس کو آپ ذرا غور کرو نا تو آپ کو ساری کائنات اِس کے مطابق نظر آئے گی کہ ہر ہر چیز اپنے اپنے علم کے مطابق چل رہی ہے بغیر سیکھے، آپ روزانہ کتنی چیونٹیاں ماردیتے ہو آپ کے پاؤں تلے آتی ہیں آپ کے صندوق تلے آتی ہیں آپ کے بستر تلے آتی ہیں اور اِس کا وجود کتنا حقیر ہے اور اَندھیرے میں انڈا دیتی ہے چیونٹی اُس کا وجود کتنا ہے اگر آپ دس کروڑ چیونٹیاں اکٹھی کرو نا دس کروڑ اور اُن کا دماغ نکالو تو اُس