ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2008 |
اكستان |
|
دَرد ہے اَبھی بھی میرے آنے کی کوئی ہمت نہیں تھی لیکن آپ حضرات سے مولانا حسن صاحب تو بڑے محترم اور معزز ہیں اُن سے کہہ دیا تھا تو میں وعدہ کے اِیفاء کی وجہ سے آیا ہوں ورنہ میرا سر بہت جکڑا ہوا ہے دَرد کی شدت سے چند باتیں آپ کی خدمت میں عرض کروں گا۔ اللہ تعالیٰ باقی جتنی انسان کے علاوہ کائنات ہے اُس کو پیدائشی طور پر ہی عالم پیدا کرتا ہے وہ نباتات ہوں یا حیوانات ہوں پرندے ہوں درندے ہوں یہ سب پیدائشی عالم ہوتے ہیں اور انسان اَحسن تقویم ہے لیکن یہ جاہل پیدا ہوتا ہے وَاللّٰہُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْ بُطُوْنِ اُمَّھَاتِکُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ شَیْئًا کہ ہم نے تمہیں جب نکالا ماں کے پیٹ سے تو تم کچھ نہیں جانتے تھے تو انسان کی اَصل ہے جہالت اور باقی جتنی کائنات ہے اُس کی اصل ہے علم رَبُّنَا الَّذِیْ اَعْطٰی کُلَّ شَیْئٍ خَلْقَہ' ثُمَّ ھَدٰی تو کُلَّ شَیْئٍ میں استثناء ہے انسان کا اُس آیت کے ساتھ شَیْئ کے عموم میں تو انسان بھی داخل ہے لیکن انسان کا استثناء ہوا اُس آیت کے ساتھ کہ لَاتَعْلَمُوْنَ شَیْئًا اور اِدھر ہے اَعْطٰی کُلَّ شَیْئٍ خَلْقَہ' ثُمَّ ھَدٰی اور ہدایت سے مراد دونوں ہی ہیں کہ جتنی مخلوق ہے وہ ضرورت کے علم کو بھی اپنے اَندر لے کر پیدا ہوتی ہے اور مقصد کے علم کو بھی اپنے اَندر لے کر پیدا ہوتی ہے اَعْطٰی کُلَّ شَیْئٍ خَلْقَہ' ثُمَّ ھَدٰی یہاں ہدایت ِ عامہ ہے زندگی گزارنے کا علم اور پھر اِس کے ساتھ دُوسری آیات جوڑو تو کُلّ قَدْ عَلِمَ صَلٰوتَہ وَتَسْبِیْحَہ اور اِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہ، سَبَّحَ لِلّٰہِ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَمَافِی الْاَرْضِ، یُسَبِّحُ لَہ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔ اَب اِن آیات کو جب ہم نے ساتھ جوڑا تو پتہ چلا کہ ساری مخلوق انسان کے سوا وہ اپنے مقصد کو بھی پہچانتی ہے میرا خالق کون ہے مجھے اُس کی بندگی کیسے کرنی ہے عَلِمَ صَلٰوتَہ وَتَسْبِیْحَہ اور مجھے زندگی کیسے گزارنی ہے اِس کا بھی اُنہیں علم ہوتا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ انسان کا بچہ ماں کے پیٹ میں نو مہینے رہتا ہے وہ باہر آتا ہے اُسے پتہ ہی نہیں میں کون ہوں اور مرغی کا بچہ اَنڈے میں اِکیس دن رہتا ہے نو مہینے اور اِکیس دن میں کتنا فرق ہے وہ اِکیس دن کے بعد نکلتا ہے اور نکلتے ہی بھاگتا ہے اور دانا چُگنا شروع کردیتا ہے اور اپنے پنجوں سے وہ اُس کو اَلگ کردیتا ہے روڑے کو اَلگ کردیتا ہے دانے کو اَلگ کردیتا ہے کسی سے بھی نہیں پوچھتا نہ ماں سے پوچھا مجھے بتاؤ نہ اَبّا سے پوچھا میں تو کہتا ہوں اَبّا تو پہلے ہی بھاگا ہوتا ہے مفرور ہوتا ہے اَبّے تو بھاگے ہوتے ہیں صرف امّاں ہوتی ہے تو اماں سے کہتا