ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2008 |
اكستان |
|
نے دِلوائی تھی ۔ اِس کا تذکرہ حضرت شاہ صاحب نے اپنی ایک کتاب میں بھی کیا ہے چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں : بیعت کے بعد میرے دل کو بہت سکون حاصل ہوا پھر ایک روز جبکہ مولانا سید حامد میاں صاحب بھی حضرت کی خدمت میں حاضر تھے اُنہوں نے حضرت سے مجھے ذکر کی اجازت دِلائی اور مولانا موصوف نے حضرت سید محمد گیسودراز (م : ٨٢٥ھ) سے میراتعلق ِ نسبی بیان کیا تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ وہ توبہت بڑے بزرگ تھے پھر فرمایا وہ شعر کس طرح ہے جو حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلی نے اِن کے بارے میں فرمایا تھا۔اِتفاق سے مجھے اُس کا ایک ہی مصرع یاد تھا۔حضرت نے سید مسعود علی آزاد کو بلایا اور پورا شعر دریافت فرمایا۔آزاد صاحب کتاب ''بزم ِصوفیہ '' اُٹھا لائے اور پورا شعر پڑھ کر سُنایا : ہر کو مریدِ سیدِ گیسودراز شد واللہ خلاف نیست کہ اُو عشق باز شد فرمایا کہ حضرت چراغ ِ دہلی نے یہ بات قسم کھا کر فرمائی ہے..................... ( حیات ِ طیبہ ص ٥٥٦ و ٥٥٧ ۔ شمائم سید محمدگیسودراز ص ٩٠) اِسی تعلق کااَثرتھاکہ حضرت سیدصاحب جب مسلم مسجدسے جامعہ مدنیہ کریم پارک منتقل ہوئے توآپ نے حضرت شاہ صاحب کوبھی اپنے پاس مدرسہ میں بلالیااورایک کمرہ خاص آپ کودیاجس میں مدتوں آپ طلباء کرام اورعوام الناس کوخوش نویسی کی تعلیم دیتے رہے،غالباً ١٩٨٤ء کے بعدآپ نے اپنی بیٹھک مدرسہ سے اپنے گھرمیں جومدرسہ کے سامنے ہی ہے منتقل کرلی اورمستقل طورپرگھرہی میں تعلیم وتربیت کاسلسلہ شروع فرمادیا،آپ کاگھرہی آپ کی بیٹھک اورآپ کی خانقاہ بن گیا، یہیں آپ کتابت سیکھنے کے لیے آنے والوں کو اصلاح دیتے اوریہیں تزکیہ واحسان کے لیے آنے والوں کوبیعت فرماتے اوراُن کوتصوف اورسلوک کی راہ پرگامزن فرماتے۔ آپ کاگھرکہنے کوگھرتھالیکن حقیقت میں وہ ایک عظیم خانقاہ بن گیاتھا جس میں آپ کے پاس کبار علماء ومشائخ اوربڑے بڑے اصحابِ دانش وکمال اوراَربابِ علم وفضل تشریف لایاکرتے تھے۔ حضرت شاہ صاحب گواِصطلاحی عالم نہیں تھے لیکن علم دوست اورعلماء کے قدردان تھے، آپ