ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2007 |
اكستان |
|
حضرت فاطمہ کو لوٹادیا اور فرمایا اے پیاری بیٹی ١ تم خود آئو سو وہ (حاضر ہوئیں اور) طباق کو کھولا تو وہ روٹی اور گوشت سے بھرا ہوا تھا پس حیران رہ گئیں اور جانا کہ یہ کھانا اللہ کے پاس سے اُترا ہے۔ پھر فرمایا اُن سے حضور ۖ نے کہاں سے تم کو یہ کھانا ملا تو جواب دیا حضرت فاطمہ نے ،وہ خدا کے پاس سے اُترا ہے ،بیشک اللہ روزی دیتا ہے بے شمار جسے چاہتا ہے۔ پس فرمایا حضور ۖ نے تمام شکر ہے اُس اللہ کا جس نے تجھے مثل سردار تمام عورتوں بنی اسرائیل کے بنایا (اور وہ حضرت مریم تھیں بطریق کرامت اُن کے پاس بے موسم غیب سے میوے آتے تھے، اُنہوں نے حضرت زکریا کے جواب میں بھی یہی فرمایا تھا کہ یہ میوے بے موسم خدا کے پاس سے آتے ہیں آخر تک) پھر اکٹھا کیا رسول مقبول ۖ نے حضرت علی بن ابی طالب اور امام حسن اور امام حسین کو اور تمام اہل بیت کو، سو سب نے کھانا کھایا اُس طباق پر یہاں تک کہ سیر ہوگئے اور کھانا باقی رہا جیسا کہ تھا تو وسعت کی (یعنی دیا) حضرت فاطمہ نے اپنے پڑوسیوں پر (اِس کو صاحب ِ کشاف نے روایت کیا ہے اور قاضی ابویعلٰی محدث نے بھی یہ قصہ سوائے ذکر قحط اور سب کے جمع کرنے کے روایت کیا ہے۔ اِس سے حسّی کرامت حضرت فاطمہ کی ثابت ہوئی جو تقوے کے ساتھ محمود ہے)۔ (جاری ہے ) ١ شاید یہ وجہ ہوگی کہ حضور ۖ کو معلوم ہوا کہ حضرت فاطمہ کے کھانے کے ہمراہ آنے سے کھانے میں زیادتی ہوجاوے گی اور دُوسری وجوہ بھی محتمل ہیں۔