ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2007 |
اكستان |
|
بس ذراسی بات میں ساری عمر کے احسانات کو فراموش کرجاتی ہیں۔ جہاں کسی دِن اُن کو شوہر کے گھر میں کھانے پہننے کی تنگی ہوئی اور اِنہوں نے اِس کو منہ پر لانا شروع کیا کہ اِس نگوڑے کے گھر میں آکر میں نے ہمیشہ تنگی ہی دیکھی۔ ماں باپ نے مجھے جان بوجھ کر کنویں میں دَھکادے دیا، میں نے اِس منحوس کے گھر میں کیا آرام دیکھا۔ غرض جو منہ میں آتا ہے کہہ ڈالتی ہیں اور اِس کا ذرا خیال نہیں کرتیں کہ آخر اِسی گھر میں ساری عمر میں نے عیش برتا ہے، مجھے اِس کو نہ بھولنا چاہیے اور خدا کا شکر اداکرنا چاہیے کہ اُس نے تکلیف آج ہی دکھلائی ہے اور زیادہ زمانہ عیش کا گزرا ہے۔ (الکمال فی الدین ص ٧٦) چیزوں کے خریدنے میں اِسراف اور شوہر کی ناشکری : ایک مرض عورتوں میں اور بھی ہے جو ناشکری کا شعبہ ہے کہ کوئی چیز خواہ کارآمد ہو یا نکمی ہو پسند آنا چاہیے۔ بے سوچے سمجھے اُس کو خرید لیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ خریدی ہوئی چیز کام آہی جاتی ہے۔ اور یہ عادت ناشکری کا شعبہ اِس لیے ہے کہ اِس میں شوہر کے مال کو برباد کرنا ہے۔ خود اپنے مال کو برباد کرنا بھی ناشکری ہے جیسا کہ اِرشاد ہے : اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہ کَفُوْرًا بے شک بے موقع مال اُڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔ اور جب مال بھی شوہرکا ہو تو کفرانِ حق کے ساتھ کفرانِ شوہر بھی ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی ناشکری کے ساتھ شوہر کی بھی ناشکری ہے) ۔مؤمن کا قلب تو زیادہ بکھیڑے سے گھبرانا چاہیے گو اِسراف (فضول خرچی) بھی نہ ہو اور بے ضرورت کوئی چیز خریدنا تو صریح اِسراف میں داخل ہے۔ حدیث میں ہے مَنَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ عَنْ اِضَاعَةِ الْمَالِ یعنی حضور ۖ نے مال کے ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آج کل گھروں میں اور خصوصًا بڑے گھروں میں بہت بڑا اسراف ہوتا ہے۔ برتن ایسے خریدے جاتے ہیں جو قیمت میں تو بہت زیادہ لیکن مضبوط خاک بھی نہیں۔ ذرا ٹھیس لگ جائے چار ٹکڑے ہوجائیں اور پھر ضرورت سے بھی زائد۔ بعض گھروں میں اِس کثرت سے شیشے چینی وغیرہ کے برتن ہوتے ہیں کہ عمر بھر بھی اُن کے استعمال کی نوبت نہیں آتی۔ اِسی طرح کپڑوں میں بھی بہت اِسراف ہوتا ہے ۔(اصلاح النساء ص ١٨٤) (جاری ہے )