ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2007 |
اكستان |
|
جاننا چاہیے کہ مذہب ِحق جو اشاعرہ کا ہے (اللہ تعالیٰ اِن کی کوششوں پر اِنہیں جزائے خیر دے) وہ صحابہ کرام اور تابعین کی پیروی میں یہ ہے کہ ابوبکر صدیق اور عمر فاروق سب صحابہ سے افضل ہیں۔ چاہے وہ علی مرتضیٰ ہوں چاہے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہم۔ اور عجائبات میں یہ بات ہے کہ یہ مسئلہ اَسلاف کے زمانہ میں ایک واضح (بدیہی) ترین مسئلہ تھا۔ کوئی بھی ذی عقل شخص اِس میں شک نہیں کرسکتا تھا سوائے اُن لوگوں کے جو ایسی بدعت میں مبتلا تھے کہ صحابہ و تابعین کی روایات کی پیروی اُن کا شیوہ ہی نہیں (یعنی شیعہ)۔ یہ واضح ترین مسئلہ اُس وقت ایسا نظری غور طلب اور اخفی(بالکل چھپا ہوا) بن گیا ہے کہ نہایت درجہ تلاش سے روایات کا بڑا ذخیرہ سامنے لائے بغیر اور صحیح اندازِ فکر اور قوی رائے سے کام لیے بغیر اِسے سمجھنا ممکن نہیں رہا جس کی وجہ یہ ہے کہ نئی نئی معلومات دین کی شکل میں ہم میں داخل ہوئیں اور رواج پکڑگئیں (تو ذہن اِس کے سوا کسی دُوسری چیز کو قبول نہیں کرتا)۔ گویا جن حالات میں ابن ِ تیمیہ نے منہاج السنہ لکھی۔ اِسی طرح کے حالات شاہ ولی اللہ صاحب کے زمانہ میں بھی تھے۔ اِس لیے دونوں ہی نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے اَحوال پیش کرنے اور اُن کی افضلیت ثابت کرنے میں اپنی پوری قوت صرف کی ہے اور اُن سے حضرت علی کے درجہ کی کمی ثابت کی ہے لیکن اہل ِ سنت کے طریقہ پر اِس حال میں بھی چلتے رہے ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مناقب ضرور ذکر کیے ہیں۔ اِنہیں امیر المؤمنین اور خلیفۂ رابع ہی لکھا ہے۔ حضرت شاہ صاحب کے بعض مضامین منہاج السنہ کے مضامین سے ملتے ہیں۔ جو موقف ابن تیمیہ نے اختیار کیا ہے متعدد جگہ شاہ صاحب نے بھی وہ لے لیا ہے اگرچہ شاہ صاحب کی کتاب ازالة الخفاء مستقل کتاب ہے جو اُن کی ذاتی تحقیقات سے لبریز ہے رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجَزَاہُ عَنَّا خَیْرَ الْجَزَآئِ ۔ غرض اِن حضرات کی یہ کتابیں شیعوں کے مقابلہ میں لکھی گئی ہیں۔ شیعہ حضرت علی کو حضرت ابوبکر سے بھی برتر ثابت کرتے ہیں اور یہ حضرات مسلک اہل ِسنت پیش کرتے ہیں تو علی الترتیب خلفاء کرام کا ذکر کرتے ہیں اور بہ نسبت حضرت علی کے اِن حضرات کی فضیلت بیان کرتے ہیں اور افضلیت جب ذکر کی جاتی