ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2007 |
اكستان |
|
٭ ختم تراویح پر کچھ تقسیم کرنا سلف سے منقول نہیں۔ جناب رسول اللہ ۖ نے تو صرف تین راتوں میں پڑھا تھا اور پھر فرضیت کے خوف سے ترک کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اِس کی جماعت باقاعدہ منظم فرمائی، مگر ختم میں کچھ تقسیم کرنا روایت میں نظر سے نہیں گزرا۔ حضرت عمر نے جب سورۂ بقرہ یاد کرلی تو خوشی میں احباب کی کھانے کی دعوت کی۔ اِس روایت اور اِس قسم کی دُوسری روایات سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ اگر ختم ِقرآن جیسی نعمت حاصل ہونے پر احباب وغیرہ کو کچھ پیش کیا جائے تو خلافِ شرع نہ ہوگا۔ ٭ سفر حج میں جناب رسول اللہ ۖ کا اَزواجِ مطہرات کی طرف سے گائے ذبح فرمانا اور پھر گوشت کو اُن میں تقسیم کرنا صحاح میں موجود ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ آپ ۖ نے باری والی زوجہ کے یہاں جب کھانا کھایا ہوگا تو یہ گوشت بھی کھایا ہوگا۔ ٭ صحاح میں پائجامہ خریدنا منقول ہے۔ نیز مُحرِم کے لباس میں پائجامہ کی ممانعت کا بھی تذکرہ ہے۔ غیر صحاح میں پائجامہ کی تعریف بھی مذکور ہے اور ترغیب بھی اور خود جناب رسول اللہ ۖ کا پہننا بھی۔ ٭ چونکہ عرب کے اصلی لباس میں اِزار (تہبند) ہی تھا اور یہ پائجامہ فارس وغیرہ سے عرب میں داخل ہوا ہے۔ وہاں کے لوگ اِس کو شلوار کہتے تھے اِس لیے عرب نے اِس کی تعریف سروال کے لفظ سے کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس لفظ کا مفرد نہیں ملتا، اب اِس کے بعد اِس کی ساخت کیسی تھی اِس کا پتہ چلانا مشکل ہے۔ ٭ قرآن شریف میں ہے مَاکَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسَاجِدَ اللّٰہِ شَاھِدِیْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ بِالْکُفْرِ (الآیة) اِس لیے تعمیر مساجد میں بلاواسطہ اِن کا مال نہ خرچ ہونا چاہیے۔ ہاں وہ اگر ایسا کریں کہ کسی مسلمان کو مال کا مالک بنادیں اور وہ خوشی سے اِس مال کو مسجد میں لگادے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ٭ مدرسہ دینیہ میں غیر مسلم کا چندہ لیا جاسکتا ہے اور طلبہ یا دیگر مذہبی یا تعلیمی اُمور میں صرف کیا جاسکتا ہے۔ ٭ مجامع عامہ میں جناب رسول اللہ ۖ کے وہ فضائل اور محاسن ِ اَخلاق و اعمال اور تعلیمات بیان ہونے چاہئیں جن کا عوام اِدراک کرسکیں اور اُن میں جذبۂ عمل و اتباع پیدا ہو اور اپنی اِصلاح کے درپے ہوں۔(جاری ہے)