ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2004 |
اكستان |
|
دے رہے ہیں کہ یہ لوگ تنگ نظر ہیں لہٰذا ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ ہمارے اعصاب کو متاثر کرنے کی کوشش میں ہیں ہمیں مرعوب کرنے کی یہ کوشش ہے۔ ہمیں پختہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ ہمارے لیے معیار کا تعین قرآنِ کریم نے کرنا ہے، مغربی ذرائع ابلاغ اِن کا پروپیگنڈہ وہ جو تاثر دُنیا میں دے رہے ہیں اُس سے ہمیں مرعوب نہیں ہونا۔ قرآن کریم میں اس خیرِاُمت کے بارے میں ہے وَکَذَالِکَ جَعَلْنَاکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا کہ ہم نے تمہیں ایک میانہ رو اُمت بنایا ہے لِتَکُوْنُ شُھَدَآ ئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُم شَہِیْدًا میانہ رو اُمت بنایا ہے تاکہ تم پوری انسانیت پر گواہ رہو اب گواہی کس بات کی ظاہر ہے کہ حضور ۖ کی یہ اُمت جب اپنی اس ڈیوٹی کو سرانجام دے گی اِس فرض کو سرانجام دے گی کہ تمام انسانیت تک اُس نے اللہ کا دین پہنچادیا اور جو رسول اللہ ۖ نے فرمایا اس پر ایمان لایا ایسا ایمان جیسے کہ وہ مشاہدہ کرہا ہو ،خوداپنی آنکھوں سے دیکھنا یہ شاید اتنی بڑی حقیقت نہ ہو جتنا کہ رسول اللہ ۖ کا فرمایا ہوا ہزار واسطوں سے بھی ہمیں پہنچے وہ جتنی بڑی حقیقت ہوتا ہے۔لہٰذا پوری اُمت گواہی دے گی یا اللہ جو رسول اللہ ۖ نے ہمیں آپ کا پیغام پہنچایا تھا ہم نے وہ سارا تمام انسانیت کے سامنے پہنچادیا ہے اوراپنا یہ فرض پورا کردیاہے اور رسول اللہ ۖ اُ مت پر گواہ ہوں گے کہ یا اللہ جو کچھ آپ نے میرے حوالے کیا وہ ساری امانت میں نے اس اُمت کے حوالہ کردی تو حضور ۖ ہم پر گواہ ہوں گے اور ہم لوگ پوری انسانیت پر گواہی دیں گے حتی کہ پچھلی اُمتوں کے بارے میںبھی کہ جن کو ہم نے دیکھا نہیں پہلے گزری ہیں لیکن اُن کے احوال اور ان کے سزاوجزاء کا جو معاملہ ہے اُس پر بھی ہم کہیں گے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ تیرے نبیوںنے یہ پیغا م اُن تک پہنچایا تھا اگلے لوگوں پر بھی ہم گواہ ہوں گے ۔ یہ خیرِاُمت کی علامت ہے کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ لیکن ساتھ یہ بھی فرمادیا کہ یہ فریضہ جو ہے یہ بے صبری سے تلخی سے اور تنگ نظری سے نہیں ہوگا ، میانہ روی کے ساتھ ہوگا کُنْتُمْ خَیْرَاُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسْ رویوں میں نرمی پیدا کرو لب ولہجہ میں شائستگی ہو اُدْعُوْا اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ دانائی بھی ہو اور پھر شائستہ اندا زِ گفتگو بھی ہو۔ آدمی کتنا خوبصورت الفاظ استعمال کیوں نہ کرے لیکن لوگوں کے ساتھ معاملات کرنے میں اُس کے پاس عقل نہیں ہے حکمت نہیںہے دانائی کے ساتھ معاملات نہیں نمٹاتا تو و ہ اچھی گفتگو بھی بے اثر ہوجاتی ہے ،اور دانائی آپ کے ساتھ جتنی اچھی ہوجتنی بھی اچھی منصوبہ بندی کیساتھ آپ بات کریں لیکن بات جو ہے وہ تلخ ہو کڑوی ہو گالم گلوچ ہو اُس میں شدت ہو ،اثر نہیں کرے گی ۔اور خود رسول اللہ ۖ کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا لَوْکُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکْ اگر آپ سخت گیر آدمی ہوئے دل میں آپ کے سختی آئی تو لوگ رُخ پھیر لیں گے۔ اب یہ صحابہ کرام جو پوری دُنیا میں پھیل گئے اور جہاں گئے انسانیت نے انہیںقبول کیا تو ظاہر ہے کہ نرم رویے کے ساتھ گئے ہوں گے اعتدال کے ساتھ گئے ہوں گے ، ہر مرحلہ پر اُنھوںنے میانہ روی کا مظاہرہ کیا ہو گا شدت کا مظاہرہ نہیں کیا ہوگا،