ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2004 |
اكستان |
|
کہ اس کو نظرانداز کیا جاسکے مثلاً ایک کمپنی کی سالانہ رپورٹ میں یہ درج ہے کہ اس کے چیف ایگزیکٹو (Chief Executive)کی 1994ء کے سال کی تنخواہ تین لاکھ تیس ہزار روپے تھی جبکہ بھتوں اور الائونسز کی صورت میں اس نے ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ کے فوائد حاصل کیے ۔کمپنی کی جانب سے کار بھی مہیا کی گئی جس کے تمام اخراجات کمپنی کے ذمہ تھے اور free furnished accomodationبھی دی ۔اسی طرح ایک اور کمپنی کے دو ڈائرکٹروں نے 1993ء کے سال میں رہائشی الائونس کے طورپر /79000روپے وصول کیے جبکہ 1994ء میں انہوں نے اسی مد میں دو لاکھ چالیس ہزار روپیہ وصول کیا۔ یہ خیال کرنا کہ چونکہ یہ جہالت مفضی الی النزاع نہیں ہوتی لہٰذا اس کا تحمل کیا جا سکتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو بہت سے لوگوں کو ان مسائل کا علم ہی نہیں ہوتا اور دوسرے ان کا کوئی بس بھی نہیں چلتا۔ اس لیے کوئی ا واز نہیں اُٹھتی ورنہ فی ذاتہ تو وہ نزاع کا باعث ہے۔ (٢) یہ بات تقریباً سب ہی کمپنیوں میں مشترک ہے کہ وہ اپنے ڈائرکٹروں (Directors)کو یہ حق دیتی ہیں کہ وہ کمپنی کے Behalfپر قرضہ لے سکتے ہیں اور سود کی ادائیگی کر سکتے ہیں یہ بات ڈائرکٹروں کے اختیارات کے بیان میںاورکمپنی کےMemorandum Of Association میں مذکور ہوتی ہے لہٰذا جب کوئی شخص کمپنی کے حصص ابتداء میں یا بعد میں خریدتاہے تووہ اس شرط کو تسلیم کرتے ہوئے خریدتا ہے اور چونکہ اس Memorandumکو قانونی اعتبار حاصل ہے لہٰذا ایجاب وقبول اور عقد کو اس میں مندرج نکات کے ساتھ مشروط سمجھا جائے گا۔ اور چونکہ یہ شرط مقتضائے عقد کے خلاف ہے لہٰذا فاسد ہے جس سے عقد اجارہ فاسد ہوا۔ ایک کمپنی کے ڈائرکٹروں کے بیان میں یوںمذکور ہے : "The directors are empowered by the company's Articles of Association to borrow or raise money or secure payment of any sum or sums of money for the purpose of the company's business." ''کمپنی کے آرٹیکلز آف ایسوسی ایشن کے تحت ڈائرکٹروں کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کمپنی کے کاروبار کی خاطر کسی بھی مقدار میں قرضہ لے سکتے ہیں یا رقم اکٹھی کرسکتے ہیں۔'' ظاہر ہے کہ ہمارے دور میں ایسے قرضے سود پر ملتے ہیں ۔ اسی طرح ایک کمپنی کے Memorandum میں یوں درج ہے :