ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2004 |
اكستان |
الغرض ہر چیز کی رُوح حاصل کرنے کے لیے اس کی صورت کا اختیار کرنا ضروری ہے ۔اسی طرح آپ نماز کو لیجیے کہ اس کی صورت، نیت باندھ کر کھڑا ہونا اور رکوع وسجود وغیرہ ادا کرنا ہے اور اس کی رُوح خدا تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنا اور اپنی عبدیت اوربندگی کا اظہار کرنا ہے تو اگر آپ نماز کی ہیئت اختیار نہ کریں تو بندگی کی یہ خاص صورت کبھی بھی حاصل نہ ہوگی ۔اسی طرح زکٰوة اور روزہ وغیرہ عبادات ہیں کہ ہر ایک کی رُوح اور صورت ہے۔ تو یہ جو''قربانی''ہے اس کی بھی ایک صورت ہے اور ایک رُوح ۔صورت تو جانورکا ذبح کرنا ہے اور اس کی حقیقت ایثارِ نفس کا جذبہ پیدا کرنا ہے جو تقرب الی اللہ ہے ۔تو ظاہر ہے کہ یہ روح بغیر جانور کو ذبح کیے کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔یہ بات پہلے معلوم ہو چکی ہے کہ ہر صورت میں اس کے مطابق رُوح ڈالی جاتی ہے ۔نماز میں نماز کی رُوح ،زکٰوة میں زکٰوة کی رُوح اورقربانی میں قربانی کی رُوح ڈالی جاتی ہے ۔غرض خداتعالیٰ نے اس کی جو صورت مقرر کردی ہے وہی اختیار کرناپڑے گی ،تب وہ رُوح اس میں ڈالی جائیگی۔اگر وہ کسی چیز کی قربانی طلب کریں تو قربانی دینی ہوگی۔ لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون۔ تم خیر کامل کبھی نہ حاصل کرسکو گے یہاں تک کہ اپنی پیاری چیز خرچ نہ کروگے۔ اور محبوب چیز مال ہوتا ہے، مال سے بھی زیادہ جانور عزیز ہوتا ہے کیونکہ جاندار ہونے کی وجہ سے اس سے زیادہ محبت ہوتی ہے ۔کیونکہ اگر بے جان چیز ضائع ہوجائے تو آدمی دوسری گھڑکر بنا سکتا ہے ۔بخلافِ جاندار کے اگر فنا ہوگیا تو دوسرا نہیں ملتا اور یہ مال تو ایسی چیز ہے کہ فنا ہوکر ہی نفع پہنچاتا ہے ۔مثلاً اگر کسی کے پاس ایک کروڑ روپیہ رکھا ہوا ہے تو وہ بے کار ہے، اس سے کوئی نفع نہیں پہنچ سکتا جب تک اس کوخرچ نہ کرلے۔تو جب دنیوی منافع اس کو خرچ کیے بغیر نہیں مل سکتا تو'' رضائے حق'' جو اعلیٰ ترین نفع ہے وہ کیسے بغیر محبوبات کی قربانی کے حاصل ہو سکتا ہے اور محبوبات کیا ہیں ؟ جان ومال، اولاد و آبرو اور غیرت وغیرہ ۔چنانچہ ارشاد ہے۔ ان اللّٰہ اشتری من المومنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنة۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے مُسلمانوں کی جانوں اور مال کو جنت کے بدلہ میںخرید لیا۔ غرض ان میں سے آپ کوہرچیز لٹانی ہوگی تب کہیں بندگی کا اظہار ہوگا ۔درحقیقت جنت تو ایمان کے بدلے میں ملے گی اور اعمال تو ایمان کی شناخت کاذریعہ ہیں۔ جیسے اگر سونا خریداجائے تو اس کو کسوٹی پرگھس کردیکھا جاتا ہے اگر کھرا ہے تو اس کی قیمت اداکرتے ہیں ورنہ نہیں تو اس جگہ قیمت سونے کی ہوتی ہے ان لکیروں کی نہیں ہوتی جو کسوٹی پرچڑھ جاتی ہیں۔ بس اسی طرح آخرت کے بازار میں جنت کے عوض میں ایمان کی قیمت ادا کرنی ہوگی اور ہمارے یہ اعمال ان لکیروں کی طرح ہمارے ایمان کی پختگی کی علامت ہیں اس لیے جنت حاصل کرنے کی غرض سے ہمیں محبوباتِ نفس کوقربان کرنا لازمی