ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2002 |
اكستان |
|
کے بعد مسجد سے بالکل غائب ہوگیا ۔اس نوجوان کا گھر تو مجھے معلوم نہ تھا تاہم اس کی جستجو میں رہا ،آخر ایک دن سڑک پر کرکٹ کھیلتا ہوا نظر آگیا ،میں اس کے قریب ہو ا علیک سلیک کے بعد میں نے پوچھا بیٹا آپ تو ہمارے پختہ نمازی تھے خیر توہے آپ کئی دنوں سے مسجد میں نہیں آرہے ۔اس نے بڑی لاپرواہی سے جواب دیا جی بہت نمازیں پڑھ لیں ،میں یہ صفحہ نمبر 19 کی عبارت جواب سن کر بہت پریشان ہو گیا کہ اتنا نیک صالح بچہ اور پختہ نمازی، ا س کا دل نماز سے کیوں اچاٹ ہوگیااور اس کے دل سے نماز کی محبت واہمیت کیوں نکل گئی ؟میں نے اس سے بات کرنا چاہی تو اس نے بات کر ناگوارا نہ کیا، آخر میں نے اسے کہا بیٹا یا تو آپ کسی وقت میرے پاس آئیں یا مجھے بتا دیں میں آپ کے پاس آجاؤں گا، وجہ تو بتا دیں کہ آپ نے نماز کیوں چھوڑ دی ۔اگر آپ کو کوئی نما ز کے بارے میں شک و شبہہ ہے تو میں ہرممکن اس کو دور کرنے کی کوشش کروںگا مگر وہ اس کے لیے آمادہ نہ ہوا او ر یہ کہہ کر چلا گیا کہ میں کسی مولوی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔میں نے مولویوں کی بہت باتیں سنی ہیں ۔میں نے مسجد میں اس نوجوان کی بگڑی ہوئی حالت کو ذکر کیا تو پتہ چلا کہ یہ طالب کسی دوسرے شہرکا رہائشی ہے ۔یہاں اس نے کالج میں داخلہ لیا ہے اور ایک کمیو نسٹ پروفیسرصاحب اس کو مفت ٹیوشن پڑھاتے ہیں ۔فرقہ واریت کے کردار اس پروفیسر کی تربیت کا نتیجہ ہے اور یہ بھی پتہ چلا کہ مذکورہ پروفیسر کئی نوجوانوں کواسلام اور علما ء اسلام سے بدظن کرکے گمراہ کر چکا ہے۔بہاولپور میں پروفیسر عبداللہ صاحب گزرے ہیں وہ فرقہ واریت پیدا کرنے کی ایک مشین تھی موصوف سرکاری ملازم ہونے کے باوجود وہ فرقہ واریت پر مبنی تبلیغی دورے کرتے، فرقہ وارانہ تقریریں کرتے اور مناظرے کرتے ،فرقہ واریت کے شاہکار مختلف رسالے لکھتے اور چھپوا کرمفت تقسیم کرتے لیکن اپنی ملازمت کے تحفظ کے لیے نام ظاہر نہ کرتے لیکن ان کی وفات کے بعد پروفیسر عبدالغفارصاحب نے ان سب رسائل کا مجموعہ پروفیسر عبداللہ کے نام سے شائع کیا ہے نیز وہ اپنی کلاس میں فرقہ وارانہ مسائل پر کھل کر طلبہ کی ذہن سازی کرتے ۔ مزید فرقہ پھیلانے اور طلبہ میں فرقہ واریت کا زہر بھرنے کے لیے موصوف نے ایک پرائیویٹ عبداللہ حال بنا رکھا تھا جہاں کالج کے طلبہ کو اپنے پاس رکھ کر ان کو فرقہ واریت کے لیے تیار کرتے۔ چنانچہ موصوف کے شاگرد جہاں جہاں پہنچے ہوئے ہیں وہ وہاں اپنے استاذ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسی طرح فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں۔سکول ،کالج، یونیورسٹی اور دیگر سرکاری اداروں میں فرقہ واریت پھیلانے کے سینکڑوں واقعات ہیں اگر وہ سب لکھے جائیں تو داستان طویل ہو جائے گی پس وہ جدید محققین جو ایک طرف فرقہ واریت کی مذمت کرتے ہیں اور علما ء کو فرقہ واریت کے حوالہ سے بدنام کرتے ہیں ،بدنام کرکے اپنی محفلوں کی رونق بڑھاتے ہیں تو دوسری طرف کتاب وسنت کی جدید تشریح کرکے فرقہ واریت پھیلاتے ہیں۔ ان کی حالت اس بڑھیا جیسی ہے جس نے باز کو دیکھ کر بڑا ترس کھایا تھا ،اس نے کہا اس کی چونچ ٹیڑھی ہے بیچارہ کھاتاکیسے ہو گا؟ یہ کہا اور باز کی چونچ کاٹ دی ۔پھر دیکھا کہ باز کے پَر بڑھے ہوئے ہیں بڑھیا کہنے لگی بڑے افسوس کی بات ہے آج تک کسی نے اس کی حجامت بھی نہیں بنائی ،یہ کہہ کر اس کے پَر کاٹ ڈالے پھر جو نظر پڑھی باز کے پنجوں پر تو آب دیدہ ہو کر کہنے لگی افسوس اس کے ناخن اتنے بڑھے ہوئے ہیں یہ تو اپنے آپ کو زخمی کر لیتا ہوگا کسی نے اس بیچارے کے ناخن بھی نہیں کاٹے یہ کہا اور باز کے ناخن بھی کاٹ کر رکھ دئیے ہیں ۔اس احمقانہ اور جاہلانہ خیرخواہی کا نتیجہ یہ ہوا کہ پر ندوں کا یہ بادشاہ