ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2002 |
اكستان |
|
ہرگز ہرگز فرقہ واریت کے مرکز نہیں ہیں اور نہ ہی وہ علماء فرقہ واریت میں ملوث ہیں ۔جو اسلاف کی اسی متواتر و متواثر علمی تحقیق و تشریح کے وارث و امین ہیں اور وہ اس تحقیق و تشریح کے قدر دان و عَلم بردا ر ہیں،جس کو تحقیق من یامن کی تحقیق کی سفلی نسبت کی بجائے تحقیق سلفی کی نسبت حاصل ہو اور جو تحقیق اسلاف کی تحقیق سے متصادم ہووہ اس صفحہ نمبر 18 کی عبارت سے بیزار ہیں ۔کتاب وسنت ان کا مقصد حیات ہے مگر ذہنی آوارگی اور باغیانہ ذہنی آلودگی کے ساتھ نہیں بلکہ اسلاف کی تحقیق و تشریح کے تحت اور یہی صراط مستقیم ہے ......ہا ںفرقہ واریت کے مراکز وہ مدارس ومساجد اور سکول ،کالج ،یونیورسٹی اور سرکاری ونیم سرکاری ادارے اور ان کے دفاتر ہیں جن میں عہد نبوت ،عہد صحابہ ،عہد تابعین سے پورے تواتر کے ساتھ علم و عمل کے راہ سے چلنے والی کتاب وسنت کی متواتر تحقیق کوتقلیدی شرک،جہالت ، رجعت پسندی ،دقیانوسیت ،ذہنی غلامی، تقلیدی ذہنی ، ذہنی جمود ،ملائیت ،مُلّاازم ، فرسودہ خیالات کامکروہ عنوان دیا جاتاہے اور اس متواتر تحقیق پر پختگی کو بنیاد پرستی انتہا پسندی ،تنگ ظرفی ،ضد ، تعصب کہا جاتا ہے اور تاریخ اسلام کے تابناک ماضی ،سنہری دور یعنی زمانہ خیرالقرون کو دور تاریکی اور جہالت ثانیہ کے اپنے اس تاریک دور کو علم وروشنی کا دور قرار دے کر اسلاف کی تحقیقات وتشریحات سے نفرت و بیزاری اورسرکشی وبغاوت کا ذہن پیدا کرکے ا س حد تک باغیانہ، متکبرانہ اور گستاخانہ ذہن اورانداز فکر پیدا کیا جاتاہے اور اس قدر خود رائی ،انانیت اور غرور و تکبر بھر دیا جاتا ہے کہ پھر ایسے لوگ صحابہ کرام سمیت بڑے بڑے محققین علماء سلف ماہرین شریعت ان کو اپنے مقابلہ میں ہیچ نظر آتے ہیں۔ اس لیے وہ ان پر اعتماد کرنے کی بجائے ان کی کامل تحقیق کو اپنی ناقص جاہلانہ ،طفلانہ بلکہ مجنونانہ تحقیق کی کسوٹی پر پرکھنا اور پرکھ کر ان کے علم و تحقیق پر تنقید و نکتہ چینی کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور ایسی تربیت کرنے والے اساتذہ کا وہ پروردہ بیٹا اور پالتو پٹھا بڑا ہی باکمال متصور ہوتا ہے جو ماہرین شریعت یعنی فقہا ء امت اور مجتہدین اسلام کی پگڑیاں اچھالنے میں دلیر ہوا ور اُن کی صحیح تحقیقات و تشریحات کو رد کرکے ان کے مقابلہ میں اپنے جاہلانہ اجتہادات اور اپنی خواہشاتی تحقیقات کو پُر فریب و پُر کشش عنوانات کے ساتھ عوام کو دھوکہ دینے کا ماہر ہوا ور یہ جو ہر جس میں جتنازیادہ ہو وہ ان کی نظرمیں اتنا زیادہ انعام واکرام کا مستحق ہوتا ہے اور وہ اتنا بڑا محقق شمار ہوتاہے ،تقریباًہرکالج ویو نیورسٹی میں اس قسم کے جدید ئیے کسی نہ کسی رنگ میں موجود ہیں جو ایک خاص انداز سے اپنی جدید تحقیقات کے پردہ میں فرقہ واریت کا تعفن پھیلا رہے ہیں ۔ راقم الحروف چند سال قبل گل گشت ملتان کی ایک مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دیتا تھا۔ مسجد کے نمازیوں میں ایک خوش بخت نوجوان بھی تھا جو ہر نماز میں اذان ہوتے ہی مسجد میں پہنچ جاتا اور جماعت کے وقت تک نوافل اور تلاوت میں مشغول رہتا ،ا س نوجوان پر مسجد کے سارے نمازی بڑے خوش تھے ۔ اپنے بچو ں کو نماز و تلاو ت کا شوق دلانے کے لیے اس نوجوان کو بطور نمونہ پیش کرتے ۔لیکن ہوا یہ کہ وہ نوجوان رفتہ رفتہ سُست ہوتا چلا گیا حتی کہ کچھ دنوں