گر خفاشے رفت در کور و کبود
بازِ سلطاں دیدہ را بارے چہ بود
اگرچمگادڑ اندھیروں میں پیشاب پاخانے کی نالیوں سے پیشاب چوس رہا ہے، پاخانہ چاٹ رہا ہے تو مجھے چمگادڑوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے، نہ کوئی غم ہے کیوں کہ وہ اپنی خصلت اور اپنی فطرت کے لحاظ سے گندگی پسند ہیں، غلاظت خور ہیں، چمگادڑ کی ظلمت پرستی، اندھیروں میں رہنے، اُلٹے لٹکنے اور پیشاب و پاخانے کی نالیوں میں بدمست رہنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن جو ’’ظالم‘‘ بادشاہ کے پاس رہتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی اور سلطانِ حقیقی کی یاد میں ملتزم اور روضۂ مبارک پر روتے ہیں، کبھی آدھی راتوں کو اٹھ کر دعائیں مانگتے ہیں تو مجھے ان سلطاں دیدہ باز کی آنکھوں پر تعجب ہے جو بازِ شاہی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ جو باز ہر وقت بادشاہ کے پاس رہتا ہے اس ظالم کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اَمردوں اور لڑکیوں سے نظر بازی کرتا ہے اور غیر اللہ سے دل لگا کر اپنے کو بدنام کرتا ہے۔ لیکن ان عاصیوں کو حقارت سے مت دیکھو کیوں کہ توبہ کی برکت سے وہ بھی اللہ کے دربار تک پہنچ جائیں گے۔
دلِ تباہ کی حلاوتِ ایمانی سے تعمیر
اس کے بعد حضرت والا کے یہ اشعار پڑھے گئے ؎
جو پرہیز کرتے نہیں معصیت سے
انہیں راہ میں سخت دشواریاں ہیں
گناہوں کے اسباب سے دور ہوں گے
تو منزل میں ہر وقت آسانیاں ہیں
دعائے دلِ سالکاں عشقِ حق ہے
دلوں میں بہت اگرچہ بیماریاں ہیں
راہِ حق میں ہر غم سے کیوں ہے گریزاں
راہِ عشق میں کب تک آسانیاں ہیں