آنے لگیں، گالوں پر جو ہڈیاں ابھر آئی تھیں ان پر گوشت آنے لگا، دوکان بھی صحیح ہوگئی، جتنی چیزیں ختم ہوگئی تھیں وہ سب آنے لگیں، دوکان پر کاہگ بھی آنے لگے اور ان کو نیند بھی آنے لگی۔ یہ عشقِ مجازی بہت بُرا مرض ہے۔ ایک عاشق نے مجھے بتایا اور میں اسے دیکھ بھی رہا تھا کہ وہ ایک معشوق کے ساتھ رہتا ہے، تو اس نے کہا کہ میری کھوپٹری ہر وقت گرم رہتی ہے، آپ کے پاس کوئی ٹھنڈا تیل ہے؟ میں نے اپنے یہاں کا بنا ہوا ہیئر آئل دے دیا جس میں ساری ٹھنڈی دوائیں کدو کا بیج، روغن کاہو، خشخاش اور بادام تھے۔وہ دو دن بعد پھر آیا اور کہا کہ آپ کے ٹھنڈے تیل سے میری کھوپڑی ٹھنڈی نہیں ہوئی، آپ کا تیل گرم ہوگیا۔ چوں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ یہ ایک معشوق کے ساتھ مبتلا ہے لہٰذا میں نے اسے کہا کہ دیکھو! اس معشوق کو بھگادو، اس کو گھر بھیج دو، اس نے فوراً میرا مشورہ مانا اور اس کو بھگا دیا، اس کے دو دن بعد آیا اور کہا کہ اب آپ کے تیل کی کوئی ضرورت نہیں ہے، میری کھوپٹری خود ہی ٹھنڈی ہوگئی۔ یہ واقعات اس لیے پیش کررہا ہوں کہ ان میں ہدایت ہے۔
عشقِ مجازی احمقانہ گناہ ہے
ایک مرتبہ ہم لوگ اپنے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ کانپور گئے، ایک ڈاکٹر آیا، چالیس سال کے قریب عمر تھی، اس کا کسی ڈاکٹرنی پر دل آگیا تھا اور اس سے شادی کرنا چاہتا تھا مگر اس ڈاکٹرنی کا دل کسی اور پر آیا ہوا تھا، وہ اس کو لفٹ نہیں کراتی تھی، بات بھی نہیں سنتی تھی، وہ روتا رہتا تھا، اس نے آکر میرے شیخ سے عرض کیا کہ حضرت ایک ڈاکٹرنی سے میرا دل مل گیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ میری شادی ہو جائے مگر وہ مجھ سے بالکل بے التفاتی، بے توجہی برتتی ہے، اس کو مجھ پر ذرا بھی رحم نہیں آتا اور یہ کہہ کر رونے لگا، اس پر ایک عالمِ اضطراب طاری تھا، اس کا جملہ اب تک یاد ہے، اس نے کہا کہ میرے قلب پر عالمِ اضطراب طاری ہے، میں پریشان وغم زدہ ہوں اور رونے بھی لگا۔ حضرت نے کہا کہ اچھا میں دعا کرتا ہوں۔بعد میں حضرت نے فرمایا کہ ظالم کسی دوسری لڑکی سے شادی کیوں نہیں کرتا، کیا عورتوں کی کوئی کمی ہے، اسی کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ ایسے معشوق کو دولاتیں مارو جو تم کو خاطر ہی میں نہ لائے، کیا یہ کوئی مقصود ہے؟ ایسی نیک لڑکی سے شادی کرو جو تم کو محبت سے قبول کر