کو نوکری نہ دی جائے۔ میں نے کہا کہ یہ اقتصادیات و معاشیات کے لحاظ سے بھی معاشرہ پر ظلم ہے کیوں کہ ایک شوہر نوکر ہے، اب آپ نے اس کی بیوی کو بھی نوکری دے دی تو اس کا گھرانہ امیر سے امیر تر ہوگیا، ڈبل آمدنی ہوگئی، لیکن اس لڑکی کی جگہ جس مرد کو نوکری نہیں ملی اس کا گھرانہ تو اُجڑ گیا، اس کے چھوٹے چھوٹے بچے اور بوڑھے ماں باپ بھوکوں مررہے ہیں، یہ معاشرہ پر ظلم ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ جو ارحم الراحمین ہیں اور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم جو رحمۃ للعالمین ہیں وہ ضرور حکم دیتے کہ اپنی دوکانوں میں اور اپنے گھر میں ہر جگہ عورتوں کو ملازم رکھ لو، مگر اﷲ نے ان کو پردہ میں رکھا ہے۔
میراث میں خواتین کو آدھا حصہ دینے کی ایک حکمت
ایک مسئلہ یاد آگیا کہ میراث کا حکم ہے کہ میراث میں لڑکی کا ایک حصہ اور لڑکے کے دو حصے کیوں ہیں؟ اس کا راز میرے قلب میں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔ جب میں نے بڑے بڑے علماء کے سامنے بیان کیا تو ان کو بھی وجد آگیا کہ چوں کہ لڑکی کی شادی ہوگئی اور لڑکی کا روٹی، کپڑا، مکان شوہر کے ذمہ ہے، دیکھا جائے تو لڑکی کو اس ایک حصے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیوں کہ اس کا روٹی کپڑا مکان شوہر کے ذمہ ہے لیکن اللہ نے ایک حصہ اس کا بھی رکھ دیا کہ کبھی مرنڈا وغیرہ پینا چاہے تو شوہر سے مانگنا نہ پڑے۔اور اللہ تعالیٰ نے لڑکے کے دو حصے اس لیے رکھے کہ لڑکے کو اپنی روٹی، کپڑا ،مکان کی بھی فکر ہے اور اپنی بیوی کی بھی فکر ہے تو ڈبل فکر والوں کو ڈبل حصہ دیا۔بتائیے! کتنا اہم مسئلہ حل ہوگیا۔ بہرحال اپنے بزرگانِ دین سے مشورہ کرو، اہل فتویٰ سے مشورہ کرو ورنہ ایمان کی خیر نہیں۔ جیسے پیٹرول پمپ پر لکھتے ہیں نو اِسموکنگ پلیز، یہ کیوں لکھتے ہیں؟ کیوں کہ آگ سے پیٹرول پمپ جل جائے گا تو حسینوں کی آگ سے ایمان جل جائے گا ؎
نہ دیکھ ان آتشیں رُخوں کو تو زِنہار
پڑھ ربنا وقنا عذاب النار
جن کے چہرہ لا ل لال انگارے ہیں ان کو مت دیکھو، ان پر اچانک نظر پڑجائے تو دعا کرو، رَبَّنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ،یہ آگ ہیں آگ۔ جب غالب آگرہ گیا تھا تو ایک شعر پڑھا تھا ؎