نہیں بڑھا سکے، بارات جارہی تھی کہ آواز سن کر رُک گئی، پوری فجر کی نماز سنی تب آگے بڑھے۔
میں نے اپنے شیخ کو آٹھ آٹھ گھنٹے عبادت میں دیکھا ہے اور حضرت عاشقانہ عبادت کرتے تھے، یہ نہیں کہ چلو کسی طرح سے لشتم پشتم معمولات پورے کرلو، حضرت اس طرح عبادت کرتے تھے، اس طرح تلاوت کرتے تھے جیسے کئی دن کا بھوکا آدمی شامی کباب اور بریانی پا جائے تو وہ کیسے شوق سے کھائے گا اور کئی دن کا پیاسا آدمی شربتِ روح افزا پاجائے تو اس کا کیا عالم ہوگا۔ حضرت کی عبادت کا یہ رنگ تھا کہ دس آیت کے بعد درمیان درمیان میں اللہ! کا نعرہ لگاتے تھے، اس نعرہ کی آواز سے مسجد گونج جاتی تھی۔ آہ! یہی کہتا ہوں کہ اﷲ والوں کی صحبت میں رہ لو۔ آج شریعت کے حکم پر عمل کی ہمت نہیں ہورہی ہے ، چاہے عالم ہی کیوں نہ ہو، عالمِ شریعت تو ہے، عاملِ شریعت نہیں ہے، اس کے پاس علم ہے مگرعمل نہیں ہے، معلوم تو ہے مگر اس کا معلوم اس کا معمول نہیں بن سکا، کیوں کہ علم روشنی ہے اور اس روشنی میں چلنے کے لیے پیٹرول کی ضرورت ہے، موٹر میں روشنی ہے مگر پیٹرول نہیں ہے تو وہ کیسے چلے گی؟ اس کے لیے اللہ والوں کے پاس جاؤ، کسی خانقاہ میں رہو، اختر یہ نہیں کہتا کہ صرف اسی کے بن جاؤ، اختر تو دعا کرتا ہے کہ جن کو مجھ سے مناسب ہو ان کو مجھ سے جوڑ دے، جن کو کسی اور سلسلہ سے مناسبت ہو ان کو وہاں پہنچادے۔ تو ان شاء اللہ اہل اﷲ کی چند دن کی صحبت کے بعد پھر یہ شعر پڑھو گے ؎
نظر سے مردہ دلوں کو ملی حیاتِ ابد
یہ واقعہ میرا خود اپنا چشم دید ہوا
یہ مولانا منصور صاحب کا شعر ہے۔
مولانا شاہ محمد احمد صاحب کی مجلس کی ایک جھلک
بیان کے بعد اشعار کی مجلس ہوگی، جن کو میرے دردِ غم اور آہ و فغاں سے مناسبت نہ ہو ان کی چھٹی ہوجائے گی اور جن کو میرے آہ و فغاں سے گرمیِ ایمان ملتی ہے ان حضرات کو