لذتِ نورِ تقویٰ
جب دل میں اللہ کی مرضی کے خلاف کچھ کرنے کا ارادہ پیدا ہو تو اس وقت اللہ کو ناخوش نہ کرو، اپنے دل پر غم سہہ لو اور مالک کو ناخوش کرکے حرام خوشیوں سے توبہ کرلو، ان شاء اللہ، اللہ آپ کے دلوں کو ایسی خوشی دے گا کہ واللہ! سلاطین کو اس کا تصور نہیں ہوسکتا۔ سورج چاند کو اپنی روشنیوں پر ندامت طاری ہو جاتی ہے جب کوئی اللہ والا راہِ تقویٰ کے غم اُٹھاتا ہے، اور جب خدا اس کو نورِ تقویٰ عطا فرماتا ہے تو اس نور کے آگے سورج چاند کی روشنی کیا حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ والوں کے قلب میں نورِ خالق ہے اور یہ سورج چاند مخلوق ہے، اﷲ کی بھِک منگی ہے۔ جب سورج چاند کو روشنی کی تھوڑی سی بھیک دینے والا اللہ مومن کے قلب میں آتا ہے تو اس کے نورِ قلب کے آگے سورج چاند کی روشنی کیا حیثیت رکھتی ہے۔
بے مثل خوشی کا راز
بندہ اپنا دل توڑ دے مگر قانونِ خدا وندی نہ توڑے شرافت اور عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کہ جس مالک نے دل بنایا، جس مالک نے آنکھیں اور روشنی دیں آپ اس کو کیوں غلط استعمال کرتے ہیں؟ جس اللہ نے ماں کے پیٹ میں ہمارے سینے کو دل عطا فرمایا ہے تو وہ دل اللہ ہی پر فدا کرنے کے لیے ہے، اگر دل ٹوٹتا ہے تو ٹوٹ جائے مگر اﷲ کا کوئی حکم نہ ٹوٹے۔ مولانا رومی کا ایک شعر یاد کرلو فرماتے ہیں ؎
گفت ایاز اے مہترانِ نامور
امر شہہ بہتر باقیمت یا گوہر
شاہی حکم زیادہ قیمتی ہے یا حسین موتی زیادہ قیمتی ہے؟ کیا اندازِ بیان ہے مولانا رومی کا! خدا کا حکم زیادہ قیمتی ہے یا سٹرکوں پر آج کل جو حسین صورتیں پِھر رہی ہیں وہ زیادہ قیمتی ہیں؟ خوب سوچ لو، فیصلہ کرلو، جن کے قلب میں اللہ کی عظمت و بڑائی ہے وہ اپنی آنکھوں کو بچاتے ہیں اور دل کو توڑتے ہیں اور اللہ کے قانون کا احترام کرتے ہیں، اس کے بدلے میں خدا ان کو بے مثل خوشی دیتا ہے، حق تعالیٰ کی ذات بے مثل ہے اور ان کی طرف سے عطائے لذتِ قرب بھی بے مثل ہے، یہ لذت نہ سلاطین کو حاصل ہے نہ سموسے پاپڑ اسے جانتے ہیں اور نہ دنیا کی