دعوت دیتا ہوں کیوں کہ ہم ان بزرگوں کے صحبت یافتہ ہیں جن کے بارے میں حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ہندوستان میں ان سے زیادہ کسی کا تعلق مع اللہ نہیں ہے اور وہ ہیں مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔ میں ان کے ساتھ مسلسل تین سال رہا ہوں۔ حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ مولانا شاہ محمد احمد صاحب نے ایک بیان فرمایا تو اس بیان نے میرے قلب کو مجلیٰ کردیا۔ جن کے وعظ سے اتنے بڑے عالم و مفتی اعظم ہند کا قلب مجلیٰ ہوا ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اختر کو تین سال رکھا۔ ایک مرتبہ مولانا شاہ محمد احمد صاحب کے اشعار کی مجلس عشاء کے بعد شروع ہوئی اور اس مجلس میں ندوہ کے علماء بھی موجود تھے، مولانا سلیمان صاحب بھی تھے، مولانا علی میاں ندوی کے بھانجے بھی تھے اور بہت سے بڑے بڑے علماء تھے۔عشاء کے بعد مجلس شروع ہوئی، اس مجلس میں صرف اشعار پڑھے گئے، جب تہجد کا وقت ہوگیا تو سب نے تہجد پڑھی، اس کے بعد پھر اشعار کی مجلس شروع ہوگئی، فجرکی نماز کے بعد پھر اشعار شروع ہوئے اور سب لوگ اشراق پڑھ کر گئے۔ یہ بات مولانا شاہ محمد احمد صاحب نے خود مجھے بتائی۔ تو آج یہاں اشعار کی جو مجلس ہوگی اس سے پہلے آپ سب کو کھانا بھی ملے گا، خالی اشعار سے لوگوں کا پیٹ نہیں بھرے گا، عشاء کے بعد فوراً کھانا ملے گا تاکہ آپ کے کان میرے اشعار کو صحیح سن سکیں ورنہ پیٹ کان میں خلل انداز ہوگا۔
موت سے پہلے موت کی تیاری
دوستو! دردِ دل سے کہتا ہوں کہ اللہ کی محبت سیکھ لو، ورنہ جس دن قبر میں گئے تو کہاں گیا کاروبار، کہاں گئیں مرسڈیز، کہاں گئے موبائل اور کہاں گیا موبل آئل، جب جنازہ قبر میں اُترے گا تو ہمارے سارے سہارے ختم ہوجائیں گے، آنکھیں ہوں گی دیکھ نہ سکو گے، کان ہوں گے سن نہ سکو گے، ناک ہوگی سونگھ نہ سکو گے، زبان ہوگی مگر کبابوں کا سب ذائقہ ختم ہوجائے گا، معشوق سامنے ہوں گے، ارد گرد ہوں گے مگر دیکھ نہ سکو گے، اگر نزع کے عالم میں معشوق آپ کے لبوں پر اپنا گال رکھ دے تو اس احساس کا اِدراک بھی نہ ہوگا۔ اکبر الٰہ آبادی کا شعر ہے ؎