قضا کے سامنے بے کار ہوتے ہیں حواس اکبرؔ
کھلی ہوتی ہیں گو آنکھیں مگر بینا نہیں ہوتیں
اے اکبر! جب موت کی بے ہوشی آتی ہے تو سارے حواس بے کار ہوجاتے ہیں۔ سیٹھ مال دار بھی ہے،عاشق مزاج رومانٹک بھی ہے، تمام لیلائیں سامنے ہیں، آنکھیں بھی کھلی ہیں مگر بینا نہیں ہیں، موت کی بے ہوشی طاری ہے، آکسیجن چڑھی ہوئی ہے، اب آنکھیں ہیں دیکھ نہیں سکتے،کان ہیں سن نہیں سکتے، وہ وقت کتنا بے بسی کا ہوتا ہے لیکن جو لوگ اللہ پر فدا ہیں ان کی روح اس وقت بھی اللہ تعالیٰ سے وابستہ ہوتی ہے، اس وقت بھی قربِ الٰہی کا عالم رہتا ہے، وہ اللہ کے قرب کی لذت اس وقت بھی کھینچتے رہتے ہیں اور ان کی اللہ والی روح اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ رہتی ہے۔ تو کیوں ایسے سہارے سے لپٹے ہوئے ہو جو تمہارے کام نہ آئے، جو ان سہاروں سے لپٹتا ہے اپنے مولیٰ سے غفلت میں رہتا ہے۔ ایک شعر اور یاد آگیا ؎
آکر قضا با ہوش کو بے ہوش کر گئی
ہنگامۂ حیات کو خاموش کر گئی
آدمی شادی کے منصوبے بناتا ہے، مکان خریدنے کی اسکیم بناتا ہے، اگر یہ خدا سے غفلت کے ساتھ ہے تو مذموم ہے۔ جو دنیا خدا سے غفلت کے ساتھ ہو وہ مذموم ہے اورا گر اللہ بھی ساتھ ہے، اللہ کی یاد بھی ساتھ ہے تو وہ دنیا دنیا نہیں ہے۔ جو دنیا ہمیں آخرت سے غافل کردے وہ دنیا بُری ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر روح المعانی میں ہے کہ دنیا کب بُری ہے؟ اِنْ اَلْھَتْکَ عَنِ الْاٰخِرَۃِ جب تم کو آخرت سے غافل کردے، فَأَمَّا اِذَادَعَتْکَ إِلٰی طَلَبِ رِضْوَانِ اللہِ تَعَالٰی وَطَلَبِ الْاٰخِرَۃِ فَنِعْمَ الْمَتَاعُ3؎ اگر تم دنیا کو وسیلۂ آخرت و ذریعہ کرلو، آخرت کا ذریعہ بنا لو تو یہ دنیا بہترین متاع ہے، بہترین مال ہے، بہترین نعمت ہے کیوں کہ مالک پر فدا ہورہی ہے۔
جعلی مرید کی علامات
بیان کے دوران حضرت والا کے اشعار پڑھے گئے ؎
_____________________________________________
3؎ روح المعانی:185/27،الحدید(20)، داراحیاءالتراث، بیروت