یہ خوِن تمنا کا انعام دیکھو
جو ویرانیاں تھیں وہ آبادیاں ہیں
فدا ان کی مرضی پہ اپنی رضا کر
فقیری میں دیکھے گا سلطانیاں ہیں
تیرے ہاتھ سے زیرِ تعمیر ہوں
مبارک مجھے میری ویرانیاں ہیں
اب ان اشعار کی شرح سمجھ لو۔ جو سالک اور اللہ کا عاشق اپنی بُری بُری خواہشات کو ہر وقت نیلام کرتا ہے مگر اللہ کو ناخوش نہیں کرتا، اپنے دل کی خواہشات کو توڑتا ہے، دل توڑ دیتا ہے مگر اللہ کے قانون کو نہیں توڑتا اور گناہ سے بچنے کا غم اُٹھا لیتا ہے تو یہ دل بظاہر ویران ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس شکستہ دل کو، ٹوٹے ہوئے دل کو، غم زدہ دل کو، زخمِ حسرت دل کو اور ویران دل کو اپنی محبت اور حلاوتِ ایمانی کے میٹیریل سے خود تعمیر فرماتے ہیں، اللہ نے اس تعمیر کی نسبت اپنی طرف کی ہے اَبْدَلْتُہٗ اِیْمَانًا4؎ جو میری راہ میں غم اٹھاتے ہیں میں ایسے دلوں کو حلاوتِ ایمانی یعنی اپنی محبت کا درد عطا کرتا ہوں۔یہ مطلب ہے اس شعر کا۔ ان شاء اللہ! ایک دن آپ محسوس کریں گے کہ اللہ تعالیٰ میرے قلب کو پیار کررہے ہیں ؎
تیرے ہاتھ سے زیرِ تعمیر ہوں میں
مبارک مجھے میری ویرانیاں ہیں
نہ ہم اپنی بُری خواہش کو توڑکر اپنے دل کو تباہ کرتے، نہ اللہ تعالیٰ اس تباہ شدہ ملبے سے ہمارے قلب کو تعمیر کا شرف عطا کرتے۔ لیکن اللہ اچھی، حلال اور جائز نعمتوں کو منع نہیں کرتا ہے، ہمیں ہر تمنا توڑنے کا حکم نہیں ہے، اپنی حلال بیوی سے محبت کرو ، حلال سموسہ پاپڑ خوب کھاؤ لیکن جب شیطان حرام نظر کا جھانپڑ کھلانے آئے تو وہ جھانپڑ مت کھاؤ۔
_____________________________________________
4؎ کنزالعمال:328/5،(13068)،الفرع فی مقدمات الزناوالخلوۃ بالاجنبیۃ،مؤسسۃ الرسالۃ المستدرک للحاکم: 349/4 (7875)