زباں سے تو اے دوست شہباز یاں ہیں
بہ باطن مگر آہ خفاشیاں ہیں
خفاش کہتے ہیں چمگادڑ کو جو گندی نالیوں میں پیشاب چوستا ہے اور آفتاب کی روشنی سے اس کو عداوت ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جو لوگ اہل اﷲ سے نفرت رکھتے ہیں ان کا مزاج چمگادڑ جیسا ہے جو اندھیروں میں اُلٹا لٹکا رہتا ہے،اس کا امپورٹ آفس اور ایکسپورٹ آفس ایک ہی ہے، جس منہ سے کھاتا ہے اسی منہ سے ہگتا ہے، یہ سورج سے بغض، نفرت اور دشمنی کی وجہ سے مُعَذَّبْ ہے اور اُلٹا لٹکا یا ہوا ہے، ایسے ہی جو لوگ اہل اﷲ سے نفرت کرتے ہیں اور ان کی غیبت کرتے ہیں وہ اسی منہ سے کھاتے ہیں اسی منہ سے ہگتے ہیں کیوں کہ غیبت پاخانہ سے بھی بدتر ہے لہٰذا یاد رکھو کچھ بھی ہو اہل اللہ کے بارے میں زبان مت کھولو۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ میں مفتی بھی ہوں اور مجھے اعتراض کرنا بھی بہت آتا ہے، میں منطق اور فلسفہ کا بہترین استاد ہوں، تبصرہ اور تنقید کا ماہر ہوں لیکن میں نے آج تک کسی اللہ والے کے بارے میں زبان نہیں کھولی، مجھے اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے کہ میں اللہ والوں کے بارے میں ہمیشہ نیک گمان رکھوں، اگر ان کی کبھی کوئی خطا دیکھ بھی لوں تو یہ سمجھوں کہ ان کی توفیق توبہ بھی اسی مقام کی ہوگی ان کی توبہ، ان کے آنسو بھی اسی مقام کے ہوں گے جس مقام پر اللہ نے ان کو فائز کیا ہے۔ عوام کی توبہ اوراللہ کے خاص بندوں کی توبہ میں فرق ہوتا ہے۔
بعض لوگ بظاہر ایسے ہیں کہ بازِ شاہی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور بادشاہ کے مقرب بھی ہوتے ہیں لیکن چھپ چھپ کر کارِ چمگادڑی کرتے ہیں یعنی نامحرم عورتوں اور اَمرد لڑکوں سے نظر بازیاں کرتے ہیں اور غیر اللہ سے دل لگاتے ہیں اور اللہ کی ناخوشی کے راستوں سے حرام خوشیوں کو استیراد یعنی درآمد کرتے ہیں، امپورٹ کرتے ہیں۔ استیراد عربی، درآمد فارسی اور امپورٹ انگریزی زبان کا لفظ ہے، آپ کی محبت میں تین زبانیں آپ کو سنائی ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کی مثنوی کا ایک شعر اپنی اس بات کی تائید میں پیش کرتا ہوں،مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎