میں بھی میری ہوشیاری تو دیکھو کہ میں مجددِ وقت کے ہاتھ پر بیعت ہوگیا۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی دعا سے جگرصاحب کا بھی یہی حال ہوا، جگر صاحب بھی کم نہیں پیتے تھے۔ کہتے ہیں ؎
پینے کو تو بے حساب پی لی
اب ہے روزِ حساب کا دھڑکا
یعنی بے حساب شراب تو پی لی لیکن اب قیامت کے خوف سے، حساب کتاب کے خوف سے دل دھڑک رہا ہے کہ اﷲ پو چھے گا تو کیا جواب دوں گا ؟ ایک دن انہوں نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے بہت ہی محبوب خلیفہ خواجہ عزیز الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ حضرت تھانوی کے یہاں جائیں تو ہمیں بھی لے چلیں، لیکن ایک بات ہے میں وہاں بھی پیوں گا۔ خواجہ صاحب نے حکیم الامّت سے جگر صاحب کی بات نقل کردی۔ حکیم الامّت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جگرصاحب سے کہہ دینا کہ خانقاہ میں تو نہیں پینے دوں گا، خانقاہ وقف کی عمارت ہے لیکن اشرف علی کے گھر میں وہ مہمان ہوں گے،جب رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کافر کو مہمان بنا سکتے ہیں تو اشرف علی ایک گناہ گار مسلمان کو مہمان کیوں نہیں بنا سکتا؟ وہ آئیں اور میرے یہاں ٹھہریں، میرا گھر ہے جو چاہے کریں۔ جگر صاحب نے یہ سنا تو رونے لگے ، کہنے لگے کہ ہم نہیں جانتے تھے کہ اﷲ والے اتنے رحم دل، اتنے کریم،اتنے مہربان ہوتے ہیں، فوراً بستر باندھا اور تھانہ بھون پہنچ گئے، جا کر توبہ کی اور کہا کہ حضرت چار دعائیں کر دیجیئے، داڑھی رکھ لوں، شراب چھوڑ دوں، حج کر لوں اور خاتمہ ایمان پر ہو۔ جب گھر واپس آئے تو شراب چھوڑ دی اور بیمار ہو گئے۔ ڈاکٹروں کا بورڈ بیٹھا کہ اگر پیوگے نہیں توبچو گے نہیں لہٰذا فوراً پینا شروع کردو، جگر صاحب نے کہا پینے سے کب تک جیوں گا؟ کہنے لگے آٹھ دس سال اور جی جاؤ گے،کہا کہ اﷲ کے غضب کے ساتھ جو موت آئے گی اس سے بہتر ہے کہ میں شراب چھوڑ کر اﷲ کو راضی کر کے مر جاؤں ، اﷲ کو راضی کر کے دس سال پہلے مرناپسند کرتا ہوں بجائے اس کے کہ حرام شراب پی کر اﷲتعالیٰ کے غضب کے ساتھ دس سال اور زندہ رہوں، اس زندگی سے مجھے موت عزیز ہے۔ اﷲکیا ایمان عطا کرتا ہے، دیکھا اﷲ والوں کی صحبت کا اثر!
مولانا الیاس صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کو امّت کا جو درد و غم ملا تھا یہ کس سے ملا تھا؟