علماء کرام کی عظیم الشان فضیلت
قرآن پاک کی آیت ہے:
یَرۡفَعِ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ 7؎
مؤمنین کو اور جن کو اﷲ نے علم دیا ہے وہ بڑے بڑے درجے پر ہیں۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت میں ایمان والوں کے بعد اﷲنے علماء کو الگ بیان فرمایا ہے،اس آیت میں علماء کا جو مقام اﷲنے بیان کیا ہے کسی اور آیت میں علماء کرام کی اتنی فضیلت ظاہر نہیں ہوتی، حالاں کہ اہلِ علم بھی تو مؤمن تھے مگر ان کو عام مؤمنین سے الگ بیان کیا کہ عام مؤمنین کے اور علماء ربانیین کے درجات میں فرق ہے۔امام فخر الدّین رازی رحمۃ اﷲ علیہ تفسیر ِکبیر میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ حدیث ہے کہ قیامت کے دن علماء کو جنّت کے دروازے پر روکا جائے گا، اندر داخل ہونے نہیں دیا جائے گا اور اﷲتعالیٰ ان سے فرمائیں گے کہ آپ جس کو چاہیں سفارش کرکے جنّت میں لے جائیں۔ یعنی سفارش کا جو مقام انبیاء کو دیا جائے گا، ان کی اتباع کی برکت سے علماء کو بھی وہ مقام دیا جائے گا۔
اصلی عالم کون ہے؟
یہاں علماء سے مراد عالم باعمل، اﷲوالے عالم مراد ہیں۔حضرت قتادہ رضی اﷲ عنہ علماء امّت کا اجماع نقل کرتے ہیں اور ان کا یہ قول ملّا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ میں لکھتے ہیں کُلُّ مَنْ عَصَی اللہَ فَھُوَ جَاھِلٌ 8؎ جو اﷲکی نا فرمانی میں مسلسل مبتلاء ہے،رشوت لیتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، ہر وقت بد نگاہی، بد نظری کرتا ہے تو مسلسل گناہ کی وجہ سے ایسا شخص اگر عالم بھی ہو تو خدا کے نزدیک وہ عالم نہیں ہے، وہ جاہل شمار کیا جائے گا۔ عالم وہ ہے جو تقویٰ اور استقامت سے رہتا ہے، احیاناً کبھی لغزش ہوجاتی ہے تو اﷲ سے توبہ کر کے ان کو راضی کر لیتا ہے مگر گناہوں کو کبھی اوڑھنا، بچھونا نہیں بناتا کہ جب دیکھو گناہوں کے
_____________________________________________
7؎ المجادلۃ:11
8؎ مرقاۃ المفاتیح: 132/9، باب البیان والشعر، مطبوعۃ ملتان