گٹر میں گرے ہوئے ہیں اور اٹھتے بھی نہیں ہیں، نہاتے بھی نہیں ہیں، توبہ بھی نہیں کرتے۔اس پر مجھے مفتی شفیع صاحب کا شعر یاد آیافرماتے ہیں ؎
ظالم! ابھی ہے فرصتِ توبہ نہ دیر کر
وہ بھی گرا نہیں جو گرا پھر سنبھل گیا
علّامہ شامی ابنِ عابدین رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ جو شخص ٹخنے سے نیچے پاجامہ لٹکاتا ہے ایسے شخص کی نہ تو امامت جائز ہے نہ اذان جائز ہے، نہ اقامت جائز ہے۔ ٹخنے چھپانا معمولی گناہ نہیں ہے۔مسلم شریف کی حدیث ہے کہ ٹخنے چھپانے والے کو اﷲتعا لیٰ نظرِ رحمت سے نہیں دیکھتے، قیامت کے دن اس سے محبّت کے ساتھ کلام نہیں فرمائیں گے اور اس کو توفیقِ تزکیہ نہیں دیں گےیعنی گناہ سے توبہ نصیب نہیں ہوگی اور قیامت کے دن اسے عذاب علیم ہوگا۔
دوستو!جب میں کسی حافظ،عالم یا قاری کا پاجامہ ٹخنوں سے نیچے لٹکا ہوا دیکھتا ہوں تو بہت صدمہ اور غم ہوتا ہے کہ یہ منبر پر اس حدیث کو کیسے بیان کر سکتا ہے، لوگ تو فوراً کہیں گے کہ مو لا نا آپ کا ٹخنہ بھی تو ڈھکا ہوا ہے۔ لیکن ٹخنہ ڈھکنے کا گناہ کب ہوتا ہے؟ جب لباس او پر سے آرہاہو اور آدمی چل رہا ہو یا کھڑا ہو لیکن اگر بیٹھے ہوئے یا لیٹے ہوئے ٹخنہ چھپ گیا مثلاً رضائی اوڑھ لی اور ٹخنہ چھپ گیا تو اس کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ اسی طرح جو لباس نیچے سے اوپر آرہا ہو اگر اس سے ٹخنہ چھپ گیا تب بھی کوئی گناہ نہیں مثلاً موزہ پہن لیا تو ٹخنہ چھپ گیا لیکن کوئی گناہ نہیں، اوپر سے آنے والے لباس مثلاً قمیص، جبّہ اور شلوار پاجا مے سے ٹخنہ چھپا تو گناہ ہے۔ علّا مہ خلیل احمدسہا رنپوری رحمۃ اللہ علیہ ابو داؤد کی شرح بذل المجہود میں لکھتے ہیں کہ جو لباس نیچے سے آئے مثلاً کسی کے گھٹنوں میں درد ہوتا ہے اور وہ ایسا موزہ بنوالے جو پیر کے انگوٹھے سے لے کر کمر تک ہو تو کوئی گناہ نہیں کیوں کہ وہ نیچے سے آرہا ہے۔
مجالس ذکر کے فضائل
اب میں بخاری شریف کی ایک حدیث کی شرح کرتا ہوں، امام بخاری حدیث نقل فرماتے ہیں کہ جہاں کچھ لوگ جمع ہوکر اللہ کا ذکر کرتے ہیں فرشتے اس جماعت کو گھیر لیتے ہیں۔ ذاکرین کی ایک جماعت اللہ کے ذکر میں مشغول تھی، اِنَّمَا جَاءَ لِحَاجَۃٍ اتنے میں