حاضر ہوئے اور حضرت کو سلام کیا، حضرت تھانوی نے دیکھا تو پہچا نے نہیں کیوں کہ ایک آدمی جس کی داڑھی نہ ہو پھر ایک مٹھی داڑھی رکھنے کے بعد کوئی اسے کیسے پہچان سکتا ہے۔ لہٰذا حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے شاہ عبدالغنی صاحب سے پوچھا کہ مو لا نا عبدالغنی!یہ کون ہیں؟ عرض کیا کہ حضرت یہ عبدالحفیظ شاعر ہیں جو آپ کی جوتیوں کے صدقہ میں اﷲوالے ہوگئے ہیں۔اور ان کا انتقال کس طرح ہوا ؟ یہ بات بھی میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے بتائی کہ جب ان کے انتقال میں تین دن رہ گئے تو اﷲ کا ایسا خوف طاری ہوا کہ گھر میں اِدھر سے تڑپتے ہوئے اُدھر جاتے تھے اور اُدھر سے تڑپتے ہوئے اِدھر آتے تھے، تڑپ تڑپ کر تین دن میں جان دے دی، شہادت کا درجہ لے کر اس دنیا سے گئے۔اﷲ کے خوف سے جو مرتا ہے اس کو خدا شہادت کا درجہ دیتا ہے۔آخر میں اپنے دیوانِ حفیظ میں دو شعر بڑھادیےتھے، فرماتے ہیں ؎
مری کھل کے سیہ کاری تو دیکھو
اور ان کی شانِ ستاری تو دیکھو
گڑا جاتا ہوں جیتے جی زمیں میں
گناہوں کی گراں باری تو دیکھو
یعنی میں اتنا گناہ گار ہوں کہ گناہوں کے بوجھ کی گٹھڑی کمر پرلدی ہوئی ہے،لیکن اﷲ تعالیٰ ہم پر اپنی ستاری کا پردہ رکھے ہوئے ہیں۔ کیا شان ہے، کیسا کریم مالک ہے کہ ہمارے پیٹ میں نجاست اور غلاظت کو بھی چھپائے ہوئے ہے اور گناہوں کو بھی چھپائے ہوئے ہے، نجاست ظاہری کو بھی چھپائے ہوئے ہے اور نجاست معنوی کو بھی چھپائے ہوئے ہے ۔ گناہ کیا ہیں؟ پیشاب پاخانہ سے بھی برے ہیں لیکن اﷲ تعالیٰ ان پر پردہ ڈالے ہوئے ہے ۔عبد الحفیظ شاعر آگے فرماتے ہیں ؎
کرے بیعت حفیظؔ اشرف علی سے
بہ ایں غفلت یہ ہشیاری تو دیکھو
یعنی میں ایسانالا ئق، شرابی، فاسق، فاجرغفلتوں میں ڈوبا ہوا انسان تھا مگر اس غفلت کے عالم