بعثتِ نبوی کے مقاصد
تو جب میں نے جامعہ اشرفیہ لاہور میں بیان کیا وہاں ایک عالم بیٹھے تھے، ان کا تعلق ایسی جماعت سے تھا جس میں ہمارے بزرگوں کا مذاق اڑایا جاتا تھا، تصوّف کا مذاق اڑایا جاتا تھا کہ تصوف کوئی چیز نہیں ہے، اﷲ والوں سے اصلاحی تعلق قائم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، صرف کتابیں پڑھ لینا کافی ہے۔ مجھے خبر نہیں تھی کہ مجمع میں ایسے لوگ بھی بیٹھے ہیں،میں نے علماء سے یہ ہی عرض کیا کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنے نبی بھیجنے کے تین مقاصد بیان کیے ہیں یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَمیرے نبی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔تو قرآن پاک کی اس آیت کے ذیل میں مکاتبِ قرآنیہ کھل گئے، جہاں جہاں قرآن پاک کے مکتب ہیں جن میں حفظ یا ناظرہ کرایا جا رہا ہے ان میں نبی کا یہ مقصد پورا ہو رہا ہے،اس شعبے سےبعثتِ نبوی کے کلام پاک کے الفاظ کی ادائیگی سیکھنے کے مقصد کی تکمیل ہورہی ہے۔ آگے اﷲ پاک ارشاد فرماتے ہیں وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ اور ہمارے نبی کتاب اﷲ کی تفسیر اور شرحِ حدیث کی تعلیم دیتے ہیں۔لہٰذا جہاں جہاں دارالعلوم کھلے ہوئے ہیں، بڑے بڑے مدارس میں احادیث پڑھائی جا رہی ہیں، تفاسیر پڑھائی جا رہی ہیں،ان مدارس میں نبی کی بعثت کے اس مقصد کی تکمیل ہو رہی ہے۔
تزکیۂ نفس کے مدارس کہاں ہیں؟
اور اﷲ تعالیٰ نے نبی کی بعثت کا تیسرا مقصد یہ بیان فرمایا ہے کہ میں نے اپنے نبی کو ایک اور مقصد کےلیے بھی بھیجا ہے جو ان دونوں سے زیادہ ضروری ہے، اگر یہ نہیں ہوگا تو وہ دونوں بھی کمزور ہو جائیں گے اور وہ ہےوَیُزَکِّیۡہِمۡ 11؎ہمارے نبی صحابہ کے قلوب کا تزکیہ فرماتے ہیں، ان کے اخلاق کی اصلاح فرماتے ہیں مثلاً تکبّر، بڑائی، غصّہ، دنیا کی محبت، عورتوں کاعشق، شہوت،عورتوں کو بری نظر سے دیکھنا، غرض گناہ کے جتنےذرائع ہیں ان سے ہمارے نبی صحابہ کو بچاتے ہیں، ان کا تزکیہ کرتے ہیں۔
_____________________________________________
11؎ البقرۃ:129