میں بچپن میں اتنا غریب تھا کہ چراغ کی روشنی کے لیے تیل نہیں ہوتا تھا،کُنْتُ اُطَالِعُ فِیْ ضَوْءِ الْقَمَرَمیں چاند کی روشنی میں مطالعہ کرتا تھا۔ مال داروں کے لڑکے ان کو حقیر سمجھتے تھے لیکن جب تفسیرِ روح المعانی لکھی تو انہیں مال داروں کے لڑکوں نے ان کی جوتیاں اٹھائیں اور کہا کہ ہمیں کیا خبر تھی کہ آپ اتنے بڑے بزرگ ہیں۔
جب میرے مرشدِ ثانی شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم لاہور تشریف لائے تو جامعہ اشرفیہ لاہور کے بانی مفتی محمد حسن امرتسری رحمۃ اﷲ علیہ کے صا حبزادے نے میرے سامنے شاہ ابرارالحق صاحب سے بیان کیا کہ حضرت ان کے بیان میں وہ جادو ہے کہ منکر تصّوف، تصّوف کا مذاق اڑانے والے، اﷲ والوں کے پاس جانے سے روکنے والےبھی تصوف کے قائل ہو گئے اور کہنے لگے کہ ایک مولوی نے آج ہمیں توجہ دلائی اورہمیں تصّوف کا قائل ہونا پڑا کہ تزکیۂ نفس کا، دل کی صفائی کا شعبہ اﷲ والوں کی صحبتیں اور خانقا ہیں ہیں۔
حصولِ ولایت کے لیے صحبتِ صالحین کی اہمیت
حضرت مجدّد الف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ اسلام کے ہزارویں سال میں مجدّد گزرے ہیں، اس لیے ان کے نام کے ساتھ الف ثانی لکھا جاتا ہے، الف ثانی کا مطلب ہے کہ مجدّدین کا ایک ہزار سال ختم ہونے کے بعد دوسرا ہزار سال شروع ہوا ہے جو مجدّد الف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ کا زمانہ گزرا ہے۔سرہند میں ان کی قبر ہے، یہ اتنے بڑے شخص ہیں کہ تمام اولیاء اﷲ ان کو سر آنکھوں پر رکھتے ہیں،یہ فرماتے ہیں کہ اﷲ کے جو صاحب ِ نسبت بندے ہیں، جن کے قلوب میں اﷲ سے تعلق اور نسبت کی دولت ہے، ان کی صحبت میں اللہ نے وہ اثر رکھا ہے کہ اگر گناہوں کے اندھیروں کے پہاڑ بھی کسی کے سر پر منڈلا رہے ہوں لیکن وہ کسی اﷲ والے کے پاس جائے تواس کی صحبت کی برکت سے گناہوں کے اندھیروں کے پہاڑ اڑ جائیں گے ۔
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ ننانوے قتل کرنے والے نے ایک جاہل غیر عالم صوفی سے پوچھا کہ کیا میرے ننانوے قتل کا گناہ معاف ہو سکتا ہے؟اس نے کہا نہیں ہوسکتا، اﷲ میاں اتنا بڑا گناہ کیسے معاف کریں گے؟ اس نے کہا کہ یہ بات ہے تو تم بھی جاؤ، یہ کہہ کر اس کو بھی قتل کردیا اورسو قتل پورے کر دیئے۔یہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے، امام