سایہ عرش کا حصول |
ہم نوٹ : |
|
میرےنقش و نگار کیسے ہیں، سنا ہے آپ حسن سے بہت عشق کرتے ہیں، آئیں مجھے گلے لگالیں۔تو اسے گلے لگاؤ گے؟ تو جان لو کہ سانپ جان لیتا ہے اورحسین ایمان لیتا ہے۔ بتاؤ! کس سے زیادہ بچنا چاہیے؟ جہانگیر بادشاہ کی بیوی نور جہاں بہت خوبصورت تھی،کمبخت کی ادائیں بھی عجیب تھیں۔ ایک مرتبہ جہانگیر اسے دو کبوتر پکڑا کر کہیں چلا گیا، واپس آکر دیکھا تو اس کے ہاتھ میں ایک ہی کبوتر تھا، اس نے پوچھا کہ ایک کبوتر کہاں گیا؟ نور جہاں نے کہا کہ اُڑ گیا، پوچھا کیسے اُڑ گیا؟ اُس کے دوسرے ہاتھ میں جو کبوتر تھا اُس کو اُڑا کر بولی: ایسے اُڑ گیا۔ تو اسی ادا پر بادشاہ نے اس سے شادی کرلی۔ نور جہاں دربار میں پردہ کی آڑ میں بادشاہ کے پیچھے نہیں بیٹھتی تھی تو بادشاہ سلطنت کے فرامینِ شاہی نہیں لکھ سکتا تھا، اس کی جدائی سے اتنا پریشان رہتا تھا، اُس کو اپنے پیچھے بٹھاکر سلطنت کے شاہی فرامین اور فیصلے لکھتا تھا۔ تو ایک دن نورجہاں نے کہا کہ جب میرے بغیر آپ کا دماغ صحیح نہیں رہتا تو آپ بھی میرا مذہب اختیار کرلیجیے، میں شیعہ ہوں، آپ بھی شیعہ بن جائیے کیوں کہ عاشق کو چاہیے کہ اپنے معشوق کے مذہب میں آجائے تو جہانگیر نے کہا کہ جاناں! بتو جاں دادم نہ کہ ایماں دادم، اے محبوب! تجھ کو اپنی جان دی ہے اپنا ایمان نہیں دیا۔ اس زمانہ کے بادشاہوں کے ایمان کا یہ حال تھا کہ جان دے دو مگر ایمان نہ دو۔ جان دینے کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کے خلاف نہ کرو، حلال بیوی سے بھی اتنی محبت جائز نہیں ہے جس کی وجہ سے جماعت سے نماز چھوٹ جائے، حلال بیوی سے بھی اتنی محبت جائز نہیں ہے کہ دین کے سب تقاضے ختم کردیے اور گھر سے باہر ہی نہیں نکلتے، مریدین کہتے ہیں کہ حضرت گھر سے باہر آکر کوئی نصیحت کیجیے مگر حضرت بیوی کے پاس بیٹھے ہیں۔ اللہ کے لیے جو محبت کرتا ہے، جس پر اللہ کی محبت چھا جاتی ہے اُس سے مخلوق کو بھی بڑا آرام رہتا ہے۔ اب یہ نہ کہو کہ بیویاں کہیں گی کہ اگر ہمارے شوہروں پر اللہ کی محبت چھاگئی تو ہمارا کیا حال ہوگا، جس پر اللہ کی محبت چھاجاتی ہے وہ اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہے، اُس کی ایک ایک بیماری اور تکلیف کو اپنا غم سمجھتا ہے کہ یہ میرے اللہ کی بندی ہے، اس کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ، اس کی خطاؤں کو معاف کرو۔ بتائیے! پانچویں نمبر کا پرچہ آسان ہے یا مشکل؟ کتنا آسان پرچہ ہے کہ اگر کوئی خوبصورت، صاحبِ جمال، عالی خاندان کی عورت بلائے تو کہہ دو کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ آہ! جس کو یقینِ کامل حاصل ہے اُس کے لیےیہ پرچہ بڑا آسان ہے۔