سایہ عرش کا حصول |
ہم نوٹ : |
|
عشقِ مجازی میں مبتلا عذاب میں مبتلا رہتے ہیں افسوس کہ آج پڑھے لکھے لوگ سب کچھ جانتے ہوئے بھی حسنِ مجازی کے نشہ میں اشعار پڑھ کر شعر و شاعری سے دل بہلاتے ہیں، اللہ کے عذاب کی باتوں سے دل بہلاتے ہیں حالاں کہ یہ شاعری کسی کے کچھ کام نہیں آئے گی، ایسے لوگوں کا دل ہمیشہ معذّب رہتا ہے، ان کی آنکھوں اور چہروں پر ذلت و لعنت برستی رہتی ہے، جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر غیراللہ سے دل لگایا ان کو ایک لمحہ کو بھی چین نہیں ہے ۔ ایسے وقت میں مجھے اپنا اُردو کا ایک شعر پیش کرنا پڑتا ہے ؎ ہتھوڑے دل پہ ہیں مغزِ دماغ میں کھونٹے بتاؤ عشقِ مجازی کے مزے کیا لوٹے یہ بات میں حقیقتاً کہتا ہوں کہ میرے پاس ایسے نوجوان مریض آئے جو کہتے تھے کہ میں غیراللہ سے دل لگائے ہوئے ہوں، کوئی ٹیڈی کے چکر میں ہے، کوئی حسین لڑکوں کے چکر میں ہے، سب کہتے تھے کہ صاحب! نیند نہیں آرہی ہے، ولیم فائیو فیل،ولیم ٹین بھی فیل ہوگئی، اب تو بجلی کا جھٹکا لگنے کو ہے، ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ گدوبندر کے پاگل خانہ میں داخل ہونا پڑے گا، دل ہر وقت پریشان رہتا ہے، بے چین رہتا ہے۔ تو میں نے ان کی اس پریشانی کو اپنے شعر میں پیش کیا ؎ ہتھوڑے دل پہ ہیں مغزِ دماغ میں کھونٹے بتاؤ عشقِ مجازی کے مزے کیا لوٹے پوری روئے زمین سے کسی بھی رومانٹک والے کو لاؤ، اگر میں اُس کے سر پر قرآن رکھ کر پوچھوں گا تو وہ یہی کہے گا کہ سخت پریشان ہوں، اس مرض سے کافر تک پریشان ہیں، یہ ظالم مرض ہی ایسا ہے۔ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ پر قربان جائیے، فرماتے ہیں کہ عشقِ مجازی عذابِ الٰہی ہے۔ اگر سونے کے پانی سے لکھیں تب بھی اس جملہ کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ غیراللہ سے دل لگانا ایسا ہے جیسے مچھلی کو پانی سے نکال کر بالو ریت پر ڈال دینا۔ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عشقِ مجازی عذابِ الٰہی اور ذلتِ دائمی ہے اور ہمارے دادا پیر