سایہ عرش کا حصول |
ہم نوٹ : |
|
عرش کا سایہ حاصل کرنے والوں کی ساتویں قسم یہ عمل عجیب ہے، بڑا سستا ہے، اس میں کوئی پیسہ لگانے والا کام نہیں ہے، نہ ہی کوئی خرچہ ہے، ساتواں نمبر اتنا آسان ہے کہ نہ اُس میں کوئی پیسہ خرچ ہوتا ہے، نہ حسین عورت کی دعوت ہے اور وہ ہے رَجُلٌ ذَکَرَ اللہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ اللہ کا کوئی مسلمان بندہ تنہائی میں اللہ کو یاد کرکے رو پڑے، اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑیں کہ اے میرے اللہ! آپ مجھ کو کیسے ملیں گے؟ کہاں ملیں گے؟ سبحان اللہ! ایک بزرگ شاعر اللہ تعالیٰ کی طلب میں عین جوانی میں جنگل میں اللہ تعالیٰ کو تلاش کرتے ہیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر اللہ سے کہتے ہیں ؎ اپنے ملنے کا پتا کوئی نشاں تو بتادے مجھ کو اے ربّ جہاں جس کو خدا اپنی تڑپ دیتا ہے تو وہ بالغ ہوتے ہی بلکہ بعض تو بالغ ہونے سے پہلے ہی ولی اللہ ہوجاتے ہیں۔ عاشق مجاز پر دو تباہ کاریاں مسلط ہوتی ہیں یاد رکھو! ان صورتوں کا کوئی بھروسہ نہیں ہے لہٰذا بگڑنے والی صورتوں پر مت بگڑو۔ بتاؤ!یہ صورتیں ہمیشہ یکساں رہیں گی یا عمر کی زیادتی سے بگڑ جائیں گی؟ تو بگڑنے والوں پر بگڑنے والے باگڑ بِلّےہوجاتے ہیں یا نہیں؟ جو بگڑنے والوں پر بگڑتے ہیں وہ ڈبل باگڑبلّے ہوجاتے ہیں یعنی خود بھی تباہ ہوتے ہیں اور جو تباہ ہونے والے ہیں ان پر بھی تباہ ہورہے ہیں یعنی دو تباہ کاریاں جمع ہوجاتی ہیں اور جو اللہ پر فدا ہورہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے نام کے صدقہ میں اُن کی حیات سے نجانے کتنے لوگ حیات پاگئے۔ میرا شعر ہے ؎ وہ دل جو تیری خاطر فریاد کررہا ہے اُجڑے ہوئے دلوں کو آباد کررہا ہے جن کے دل اندر ہی اندر خدائے تعالیٰ کو یاد کرتے رہتے ہیں اُن کی صحبتوں میں بیٹھنے والوں کے دلوں کو بھی اللہ تعالیٰ آباد کردیتا ہے۔ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا تھا ؎