سایہ عرش کا حصول |
ہم نوٹ : |
|
جدّہ جانے میں جتنا پیٹرول خرچ ہوتا ہے تقریباً اتنی ہی مقدار اس کو اڑانے میں خرچ ہوجاتی ہے، اس کے بعد جب وہ ہواؤں کے دوش پر اُڑنے لگتاہےتو پیٹرول کم خرچ کرتا ہے۔ اﷲ والے لطیف المزاج ہوتے ہیں ہواؤں کے دوش پر مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کا کیا پیارا شعر یاد آیا ؎ گفت پیغمبر کہ بر دستِ صبا از یمن می آیدم بوئے خدا سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ سفر فرمارہے تھے کہ اچانک یمن کے محاذات پر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ اے لوگو! صبا یعنی ہوا کے ہاتھوں پر یمن سے اللہ تعالیٰ کی خوشبو آرہی ہے۔ یہ خوشبو حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کی خوشبو کو کوئی نہیں چھپا سکتا چاہے حاسدین لاکھ ان کا چراغ بجھانے کی کوشش کریں۔اللہ والے اتنا مجاہدہ کرتے ہیں، اتنا زیادہ خونِ آرزو پیتے ہیں کہ اُن کے دل میں دریائے خوں بہتا ہے، وہ مخنث نہیں ہوتے، اُن میں بھی حسن کی طرف میلان ہوتا ہے اور آپ سے زیادہ حسن کا ادراک ہوتا ہے کیوں کہ وہ پاکیزہ طبیعت اور لطیف مزاج کے ہوتے ہیں، ان کے مزاج میں لطافت ہوتی ہے، وہ ادنیٰ حسن کو بھی سمجھ لیتے ہیں اور کثیف لوگ اس لیے لطیف مزاج کے نہیں ہوتے کیوں کہ گناہوں کی کثافت کی وجہ سے اُن کا ادراکِ حسن کمزور ہوتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کے نام کے صدقے میں اﷲ والے لطیف المزاج ہوتے ہیں تو ان کا ادراک بھی قوی ہوتا ہے۔ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کسی حسین پر نظر پڑی تو نظر بچا کر آسمان کی طرف دیکھا اور یہ شعر پڑھا ؎ بہت گو ولولے دل کے ہمیں مجبور کرتے ہیں تری خاطر گلے کا گھونٹنا منظور کرتے ہیں اسے کہتے ہیں ایمان! یہ کیا کہ اللہ کی محبت کا دعویٰ صرف مسجدوں میں، روضۂ مبارک پر، ملتزم پر ہے، وہاں تو آنکھیں اشکبار ہیں لیکن سڑکوں پر جب کوئی ڈسٹمپر لگا مٹی کا پتلا نظر آتا ہے تو اُس وقت پیغمبر یاد نہیں آتا۔ نعت شریف پڑھنے والو! ڈسٹمپروں اور سڑنے والی لاشوں