سایہ عرش کا حصول |
ہم نوٹ : |
|
حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جو اللہ کو چھوڑ کر حسینوں سے دل لگاتا ہے اس کا انجام نفرت اور عداوت ہوتا ہے کیوں کہ آخر میں ان دونوں میں دُشمنی ہوجاتی ہے۔ اس ملفوظ پر میرا اُردو شعر ہے، ذرا غور سے سنیں ؎ انجامِ محبت نفسانی نفرت ہی سے کنورٹ ہوتی ہے اور اس کے مِرَنڈے رس گُلّے شیطان کی بِنوَٹ ہوتی ہے پرانے زمانہ میں لاٹھی چلانے کے فن کو بِنوَٹ کہتے تھےاور کنورٹ (convert) انگلش کا لفظ ہے، اس کے معنیٰ تبدیل ہونے کے ہیں، میں اُردو غزل میں انگلش داخل کررہا ہوں۔ گناہ پر راضی کرنے کے لیے عاشق شروع شروع میں معشوقوں کو خوب مرنڈا اور رس گُلّہ کھلاتے پلاتے ہیں، پھر شیطان اسی کے ذریعہ سے پھنسا دیتا ہے یعنی بدفعلی کے گناہ میں مبتلا کردیتا ہے۔ حسنِ فانی کا انجام اللہ تعالیٰ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر کو نور سے بھردے۔ فرماتے ہیں کہ بس اپنی بیوی سے محبت کرو، بیوی حلال ہے، اُس سے خوب محبت کرو مگر خبردار! کسی کی بہو، بہن، بیٹی کو مت دیکھو، ان کے کالے بالوں سے دھوکا مت کھاؤ۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ زُلفِ جعد و مشک بار و عقل بر آخرش زلفِ دُم زشت پیر خر جن کے بال آج کالے ہیں، مشک بار ہیں یعنی ان سے مشک کی خوشبو آرہی ہے اور عقل بر ہیں یعنی تمہاری عقل اُڑا رہے ہیں لیکن ان بالوں کا انجام کیا ہوگا؟ آخر میں وہ بڈھے گدھے کی دُم معلوم ہوں گے۔ جب اس حسینہ کی عمر اسّی برس کی ہوجائے گی اور اس کا عاشق اس کو نانی اماں کہے گا تو وہ کہے گی کہ کمبخت مجھ کو نانی اماں بناتا ہے، تو وہ کہے گا کہ کیااب بھی نانی اماں نہ کہوں جبکہ ساڑھے گیارہ نمبر کا چشمہ لگا ہوا ہے اور کمر کمان کی طرح جھکی ہوئی ہے ؎ کمر جھک کے مثلِ کمانی ہوئی کوئی نانا ہوا کوئی نانی ہوئی