سایہ عرش کا حصول |
ہم نوٹ : |
|
لیے الگ ہوتے ہیں یعنی خانقاہوں میں آتے ہیں لیکن امّاں بیمار ہے تو تھوڑی دیر بیٹھ کر پھر اجازت لے کر چلے جاتے ہیں غرض اُن کا ملنا اور الگ ہونا اللہ ہی کے لیے ہوتا ہے تو ان کو بھی عرش کا سایہ ملے گا لیکن اس میں ایک شرط لکھی ہے کہ اس محبت پر قائم بھی رہے، ذرا ذرا سی بات پر کینہ و رنجش اور بدگمانی نہ آنے پائے، اس محبت پر ہمیشہ قائم رہے۔ اللہ والی محبت کو شیطان کبھی بدگمانی پیدا کرکے ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جہاں سے پانی ملتا ہے شیطان چاہتا ہے کہ اُس چشمہ سے متعلق دل میں بدگمانی ڈال دے۔ یاد رکھو! اگر اللہ والوں سے بدگمانی ہو تو روتے روتے سجدہ گاہ کو تر کردو اور اللہ سے پناہ مانگو کیوں کہ پھر عرش کا فیض آپ کو نہیں ملے گا۔ ایک عورت نے اپنے بچے کو استنجا کرایا تو تھوڑی سی غلاظت اُس کی انگلی پر لگی رہ گئی، اُس کو نظر نہیں آئی، پھر عید کا چاند نظر آیا تو سب عورتوں نے کہا کہ بہن چاند نظر آگیا تم بھی دیکھ لو، اُس نے بھی چاند دیکھا۔ عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب بات کرتی ہیں تو ناک پر انگلی رکھ لیتی ہیں تو اُس عورت نے جس کی انگلی پر غلاظت لگی ہوئی تھی ناک پر انگلی رکھ کر کہا کہ توبہ توبہ اس دفعہ کا چاند تو بہت سڑا ہوا بدبودار نکلا ہے۔ تو حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ چاند کی بدبونہیں تھی،یہ اس کی انگلی کی بدبو تھی۔ ایسے ہی جو لوگ اﷲ والوں سے بدگمانی کرتے ہیں یہ اُن کے دل کی بدبو ہوتی ہے، ان کی بدگمانی کی بدبو ہوتی ہے جس کی وجہ سے شیخ کا فیض حاصل نہیں ہوتا۔ عرش کا سایہ حاصل کرنے والوں کی پانچویں قسم وَرَجُلٌ دَعَتْہُ اِمْرَأَۃٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَّجَمَالٍ فَقَالَ اِنِّیْ اَخَافُ اللہَ کسی شخص کو کوئی خوبصورت، عالی خاندان اور باعزت عورت گناہ کی دعوت دے، اور وہ عورت خاندانی لحاظ سے اونچے خاندان کی ہوکیوں کہ بعض لوگ وضع داری میں ایسے ہوتے ہیں کہ اگر بھنگن بلائے تو اُنہیں شرم آتی ہے۔ تو سیّد الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ عالی خاندان کی صاحبِ جمال اور خوبصورت عورت نے اسے اشارہ کیا، دعوتِ گناہ دی، اُس کو اپنی طرف بلایا مگر اُس نے کہا اِنِّیْ اَخَافُ اللہَ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ آہ! اللہ ہم سب کو ایسا ایمان عطا فرمائے۔