سایہ عرش کا حصول |
ہم نوٹ : |
|
یعنی اپنی داڑھی کو دیکھ کر خود تماشا بن گئے اور یہ شعر اپنے لیے ہی کہہ رہے ہیں۔ آہ! کیا پیارا شعر کہا۔ پھر میرٹھ میں جب تانگے پر جارہے تھے تو تانگے والا اسی شعر کو پڑھ کر مزہ لے رہا تھا۔ اُس نے پہچانا نہیں کہ جگر صاحب آج اُس کے تانگے پر بیٹھے ہیں۔ تو جگر صاحب رونے لگے کہ آہ! اللہ تعالیٰ یہ آپ کا کرم ہے کہ آج میرا یہ شعر اتنا مقبول ہورہا ہے۔ حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ایک رسالہ ’’نالۂ غمناک‘‘ ہے، بڑا ہی درد ناک ہے، شاید ہی کوئی سنگ دل ہو جو اس کو پڑھ کر رو نہ پڑے۔ تو دہلی میں ایک آدمی اسے پڑھتا جارہا تھا اور روتا جارہا تھا کہ ہائے یہ کیسا شاعر ہے، کیسا درد بھرا دل رکھتا ہے، اس نے اپنے اشعار میں اللہ کی محبت کا کیا درد بھر دیا ہے۔ حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اُس کے ساتھ ساتھ جارہے تھے۔ تو حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اُس کے کان میں کہا کہ ارے اتنی کیا تعریف کررہا ہے، اس میں کیا رکھا ہے؟ حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اُس سے مذاق کررہے تھے کہ ارے اتنی کیا تعریف کررہا ہے،اس میں کون سا درد بھرا ہوا ہے؟ تو وہ کہتا ہے کہ ؎ لذتِ درد کو بے درد کیا جانے تو حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اُس کی اِس بات سے خوب مزہ لیا اور بہت خوش ہوئے کہ میری ہی کتاب پڑھنے والے آج مجھ سے ایسی بات کررہے ہیں۔ تو میں یہ عرض کررہا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے تو تمام گناہوں سے توبہ کرلو، اگر گناہ نہ چھوڑے تو موت کے وقت تو سب کچھ چھوڑنا ہی پڑے گا۔ بتاؤ! جس دن موت آئے گی اس دن سارے گناہ چھوڑنے پڑیں گے یا نہیں؟ لہٰذا یہ نہ سوچو کہ ابھی مرنے میں بہت دن ہیں بلکہ یہ سوچو کہ موت کسی وقت بھی آسکتی ہے ؎ نجانے بلا لے پیا کس گھڑی تو رہ جائے تکتی کھڑی کی کھڑی پھر ہمارے یہ سارے ارادے خاک میں مل جائیں گے، جب اچانک موت آئے گی تو سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے پھر پٹائی اور عذاب اور ذلّت شروع ہوجائے گی۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ خدا کے لیے اپنے حال پر جلد رحم کیجیے، جلد اللہ تعالیٰ سے رحم مانگیے،