Deobandi Books

رمضان ماہ تقوی

ہم نوٹ :

35 - 42
فرمایاجو عظیم القدر ہے اور ہر امتی کی معافی کی ضمانت کا کفیل ہے تاکہ نالائق سے نالائق امتی بھی اللہ کے کرم اور معافی سے محروم نہ رہے۔
تو دو لفظ عَفُوٌّاور کَرِیْمٌ کی شرح ہوگئی۔ آگے ہے تُحِبُّ الْعَفْوَ، تُحِبُّ مضارع ہے اور مضارع میں دو زمانے ہوتے ہیں، زمانۂ حال اور زمانۂ استقبال  یعنی آپ اپنے بندوں کو معاف کرنے کے عمل کو حال میں بھی محبوب رکھتے ہیں اور آیندہ  بھی اگر ہم سے خطا ہوئی تو آیندہ بھی آپ ہمیں معاف کرنے کو محبوب رکھیں گے۔تو تُحِبُّ الْعَفْوَ  کا مطلب ہوا کہ اے اللہ آپ اس وقت بھی معافی دینے کو محبوب رکھتے ہیں اور اگر  آیندہ  بھی ہم سے خطا ہوگئی تو ہمیں معاف کرنے کے عمل سے آپ کی محبت آیندہ  بھی قائم رہے گی۔
اب اس کی عربی شرح سن لو جو مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ میں ہے،تُحِبُّ الْعَفْوَ  اَیْ اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ تُحِبُّ ظُہُوْرَ صِفَۃِ الْعَفْوِ عَلٰی عِبَادِکَ15؎ آپ محبوب رکھتے ہیں اپنی معافی دینے کی صفت کے ظہور کو اپنے بندوں پر۔ یعنی اپنے بندوں کو معاف کرنا آپ کا محبوب عمل ہے۔جیسے ہرن کے شکار کا عاشق بادشاہ کہیں جائے تو چوں کہ  ہرن کا شکار کرنا بادشاہ کا محبوب عمل ہے لہٰذا اگر وہاں کے لوگ بادشاہ کو ہرن کے جنگل کا پتا بتادیں توبادشاہ انعام بھی دیتا ہے، اور شاباشی بھی دیتا ہے۔تو اے اللہ! آپ کو بھی معاف کرنے کا عمل بہت محبوب ہے لہٰذا آپ کے اس محبوب عمل کو اپنے اوپر جاری کرنے کے لیے ہم خود اپنے گناہوں کی گٹھڑی لے کر حاضر ہوئے ہیں تاکہ آپ اپنے اس محبوب عمل کو ہم پر جاری    فرما کر ہم کو معاف کردیں۔  
تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اللہ تعالیٰ کے محبوب عمل کو اپنی امت کے سامنے پیش کردیا کہ اللہ  کو معاف کرنا بہت محبوب ہے تو اے میری امت! شب قدر میں یہ دعا مانگو تاکہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا محبوب عمل جاری فرمالیں یعنی تمہارے گناہوں کو معاف کرکے خوش ہوجائیں اور تمہارا بیڑا پار ہوجائے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمہارے گناہ خیر ہیں، تمہارے گناہ تو خراب چیز ہیں مگر اللہ تعالیٰ کو معاف کرنا محبوب ہے۔ اس لیے شب قدر میں یہ دعا مانگو   تاکہ   اللہ تعالیٰ اپنا محبوب عمل کرکے اپنی محبوب صفت کا تم پر ظہور کردیں  اور تمہارا کام  بن  جائے۔ تُحِبُّ الْعَفْوَ کے بعدآگے ہے فَاعْفُ عَنِّیْ عربی گرامر کے لحاظ سے
_____________________________________________
15؎  مرقاۃ المفاتیح:321/4،باب لیلۃ القدر، المکتبۃ  الامدادیۃ، ملتان
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 روزہ کی فرضیت میں اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت کا ظہور 10 1
3 روزہ داروں کے لیے ایک عظیم انعام 11 1
4 روزہ داروں کے لیے دو خوشیاں 11 1
5 سحری کھانے کی فضیلت 12 1
6 نامراد اور بامراد لوگ 13 1
9 جبرئیل علیہ السلام کی بد دعا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمین 13 1
10 روزہ کی فرضیت کا مقصد 14 1
11 ایک مہینہ تقویٰ سے رہنے کی مشق 16 1
12 رمضان شریف میں صحبت اہل اللہ کا فائدہ 18 1
13 رمضان کی قدر کرلیجیے 19 1
14 رمضان کے چار خصوصی اعمال 19 1
15 ستر ہزار مرتبہ کلمہ پڑھ کر ایصالِ ثواب کرنے کی فضیلت 20 1
16 تلاوت کی کثرت 22 1
17 کثرتِ دعا کا اہتمام 23 1
18 اُجرت پر تراویح پڑھانے کا حکم 25 1
19 تلاوتِ قرآن پاک کی ایک سنت 27 1
20 اعتکاف کے ایک حکم کی عجیب و غریب شرح 27 1
21 شبِ قدر کا اعتبار ظہورِ قمر سے ہوتا ہے 29 1
22 اجتماعی ذکر میں لائٹ بند کرکے رونے کی حقیقت 29 1
23 دعائےشبِ قدر کی عالمانہ اور عاشقانہ شرح 30 1
28 رمضان کے آخری ایام کی برکتیں بھی سمیٹ لیجیے 36 1
29 عید گاہ میں نفل نماز کی ادائیگی کا مسئلہ 36 1
30 عید گاہ میں مصافحہ و معانقہ سے پرہیز کریں 37 1
31 رمضان کے جانے کا افسوس نہیں کرنا چاہیے 39 1
32 رمضان کا جوش عارضی ثابت نہ ہو 39 1
37 پیش لفظ 7 1
38 رمضان سے گھبرانا نہیں چاہیے 9 1
39 کریم کی پہلی تعریف 33 23
40 کریم کی دوسری تعریف 34 23
41 کریم کی تیسری تعریف 34 23
42 کریم کی چوتھی تعریف 34 23
Flag Counter