رمضان ماہ تقوی |
ہم نوٹ : |
کی طرح بِکوانا نہیں چاہیے۔ میرے شیخِ ثانی مولانا ابرارالحق صاحب نے فرمایا کہ ہندوستان کے شہر حیدرآباد دکن میں شعبان میں حافظ جمع ہوجاتے ہیں،اس کا نام ہے حافظوں کی منڈی، وہاں سیٹھ لوگ بھی جاتے ہیں اور ان سے تھوڑا سا قرآن سنتے ہیں،پھر پوچھتے ہیں کتنے پیسے لوگے؟ وہ کہتا ہے پانچ ہزار لوں گا، سیٹھ کہتا ہے کہ نہیں بھائی آپ نے بہت زیادہ ریٹ بتایا ہے، تھوڑا کم کیجیے۔ غرض وہاں پر بھاؤ تاؤ ہوتا ہے،اس لیے اس کا نام حافظوں کی منڈی ہے۔ بہشتی زیور کے گیارہویں حصہ میں ہے کہ اگر کوئی حافظ پیسے لیے بغیر قرآن نہیں سناتا تو اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ سے تراویح پڑھو۔ قرآن پڑھاکر اجرت لینا اور دینا دونوں حرام ہے، اگر کسی مسجد میں پورا قرآن سنانے والا بغیر اجرت کے کوئی حافظ نہیں ملتا تو اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ سے تراویح پڑھ لو کیوں کہ مسجد میں تراویح کے اندر ایک قرآن مکمل کرنا سنتِ مؤکدہ ہے اور تراویح سنانے کے لیے حافظ یا قاری کو پیسے دینا حرام ہے لہٰذا حرام کام کرکے سنت مؤکدہ کی تکمیل جائز نہیں ہے، ایسی سنت مؤکدہ شریعت نے معاف کردی ہے،اس سے بہتر ہے کہ اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ سے تراویح پڑھو۔ میں مسجد میں کہتا ہوں کہ جو حافظ اس کی ہمت کرلے کہ بغیر پیسےکے تراویح پڑھاؤں گا ان شاء اللہ اس کو اللہ تعالیٰ غیب سے اتنا دے گا، ایسا حج و عمرہ نصیب کرے گا، رزق کے ایسے اسباب پیدا ہوں گے کہ وہ حیران رہ جائے گا۔ اللہ کو راضی کرکے تو دیکھو ۔ میرے یہاں ایک حافظ نے تراویح میں قرآن سنایا تھا، انہوں نے پیسے نہیں لیے، نہ ان کو کپڑوں کا جوڑا دیا گیاحالاں کہ ان کو پیسوں کی شدید ضرورت تھی، باپ مر چکا تھا، بہن جوان تھی اور اس کی شادی کے لیے رات دن رورہا تھا۔ تودوستو! کیا عرض کروں کہ آج صبح ایک شخص آیا اور سترہ ہزار روپے دے گیا جبکہ اس نے کسی سے سوال بھی نہیں کیا تھا۔ اس لیے واللہ! مسجد میں کہتا ہوں کہ شریعت پر عمل کر کے اپنے اللہ کو راضی تو کرو پھر دیکھو کہ اللہ تھوڑی سی روزی میں بھی برکت ڈال دے گا۔ تو جو حافظ معاوضہ لے کر قرآن سنائے اس کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے۔ وہ قرآن کو بیچتا ہے، تراویح پڑھانے کی اجرت لینا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں اپنے لیے نہیں مانگتا مگر میرے مدرسے کےلیے کچھ کردیجیے۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ بھی ایک قسم کا معاوضہ ہے چاہے وہ مدرسے ہی کے لیے لیا ہو کیوں کہ اگر وہ قرآن نہ سناتا تو مدرسے