Deobandi Books

طلبہ و مدرسین سے خصوصی خطاب

ہم نوٹ :

30 - 34
اس کا فائدہ آپ لوگ دیکھیں گے، بس صرف وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جن کی بیویاں ہیں۔
حدیث میں آتا ہے کہ اپنی مونچھوں کو کٹاؤ کیوں کہ بنی اسرائیل نے بڑی بڑی مونچھیں رکھی تھیں جس کی وجہ سے اُن کی بیویاں زِنا میں مبتلا ہوگئیں کیوں کہ بڑی مونچھوں کی وجہ سے ان کی شکل خراب ہوگئی اور ان کی بیویوں کو اُن سے نفرت ہوگئی لہٰذا بیوی والوں کو شریعت اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنے حسن و جمال کو قائم رکھیں لیکن جن استادوں کی شادیاں نہیں ہوئیں ان کو اور تمام غیر شادی شدہ طلبہ کو سر منڈوا دینا چاہیے، طلبہ کو تو چھوٹے بالوں کی بھی اجازت مت دو، ان کا سر منڈواؤ اور سرسوں کے تیل کی مالش کرو اور پھر دیکھو تمہاری شکل نفس و شیطان سے کیسے محفوظ رہتی ہے، تمہیں کوئی پوچھے گا بھی نہیں، ان شاء اللہ۔ پھر تم صرف علم حاصل کرنے میں لگ جاؤ گے،پھر جب اللہ کہوگے تو ان کے نام کا مزہ آجائے گا، تلاوت میں مزہ آجائے گا۔ اسی حسن نے تو ساری دنیا میں فتنہ برپا کیا ہوا ہے۔
تو اپنی مونچھوں کو باریک رکھو، اپنے بزرگوں اور صالحین کو دیکھو، اوپر والے ہونٹ کے کنارے سے مونچھ تو بالکل بھی آگے نہیں بڑھنی چاہیے،یہ آخری لائن ہے، مونچھوں کا اس لائن سے آگے بڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ مونچھوں کے کٹانے میں مبالغہ کرو چناں چہ ہمارے اکابر کو دیکھو وہ مونچھوں کو بالکل برابر کردیتے ہیں، تو آپ مونچھیں بالکل برابر کرکے فرسٹ ڈویژن میں پاس کیوں نہیں ہوتے؟ اور مونچھیں ٹھیک کرنے میں افضل یہ ہے کہ ان کو اُسترے سے نہیں بلکہ قینچی سے ٹھیک کرو۔
طلبہ کو بُری صحبت سے بچنے کی نصیحت
اوراے طالبِ علمو! بُرے لڑکوں کے ساتھ مت رہو، جو لڑکے ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں اُن کے ساتھ مت رہو۔ دیکھو! ایک چوہے نے ایک مینڈک سے دوستی کرلی، مینڈک نے کہا کہ میں پانی کا جانور ہوں اور تم خشکی کے جانور ہو، ہماری دوستی نہیں ہوسکتی تو چوہا رونے لگا اور کہا کہ میں تمہاری محبت میں پاگل ہورہا ہوں، میں تمہارے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔ غرض مینڈک کو خوب بے وقوف بناکر دوستی کرلی۔ ایک دفعہ چوہا دریا کے کنارے جاکر بہت رویا مگر مینڈک کو پانی کے اندر سنائی نہیں دیا۔ جب وہ ایک گھنٹے بعد پانی سے نکلا تو چوہے نے کہا کہ میں ایک گھنٹے سے رو رہا ہوں، دیکھو میرے آنسو نکل رہے ہیں، میں تمہارے بغیر پریشان رہتا ہوں، لہٰذا کوئی 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بے ادبی اور بد تمیزی کی سزا کا ایک اہم اُصول 6 1
3 کسی کے جاہل یا بد دین ہونے کی شرعی دلیل 7 1
4 ادب و اکرام کی اہمیت 7 1
5 طلبہ کی کثرتِ تعداد مطلوب نہیں 8 1
6 علم کی برکت اور کثرت کا فرق 9 1
7 حدیثِ اسبالِ ازار میں خُیَلَاءً کی قید قیدِ احترازی نہیں، قیدِ واقعی ہے 10 1
8 پائجامہ ٹخنے سے نیچے لٹکانے کی وجہ کبر ہے 10 1
9 علم کا مطلوب علمِ نافع حاصل کرنا ہے 11 1
10 علم کی برکت کے حاصل کرنے کا طریقہ 12 1
11 حدیث مَا بُدِیَٔ بِشَیْءٍ الٰخ کی علمی تحقیق 12 1
12 تحصیلِ علم میں سب سے اہم چیز اصلاحِ نیت ہے 13 1
13 حفاظ کو تراویح پر اُجرت نہ لینے کی درد مندانہ تلقین 14 1
14 بعثتِ نبوی کے تین مقاصد 15 1
15 محبتِ للّٰہی کی بنیاد زبان و رنگ پر نہیں ہے 16 1
16 بعثتِ نبوی کے تین مقاصد: تلاوتِ قرآن،تعلیمِ کتاب اور تزکیہ 17 1
17 توکل علی اللہ کا ایک واقعہ 19 1
18 حضرت مولانا شاہ فضلِ رحمٰن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے استغنا کا ایک واقعہ 20 1
19 اخلاصِ نیت کی تلقین 21 1
20 قرآنِ پاک میں علماء کے بلند مقام کا تذکرہ 23 1
21 اصلاحِ نفس کی اہمیت 24 1
22 دنیا کا مزہ بھی اللہ کی محبت پر موقوف ہے 25 1
23 دنیا کی فانی نعمتوں کی مثال 25 1
24 گناہ اورتحصیلِ علم جمع نہیں ہو سکتے 26 1
25 ہڑتال اور اسٹرائک غیر شرعی عمل ہے 26 1
26 ادب کے ثمرات 26 1
27 طلبہ کو سر پر بال نہ رکھنے کی تلقین 29 1
28 طلبہ کو بُری صحبت سے بچنے کی نصیحت 30 1
29 ایک اہلِ دل کی ایک مدرسہ کے مہتمم سے درد مندانہ گزارش 32 1
Flag Counter