طلبہ و مدرسین سے خصوصی خطاب |
ہم نوٹ : |
|
علم کی برکت کے حاصل کرنے کا طریقہ تو علم میں برکت دو وجہ سے آتی ہے: نمبر ۱: اساتذہ کا ادب کرو۔ اگر آپ نے مطالعہ کرکے حاشیہ اور شرح دیکھ لی اور استاد نے اُس کی شرح بیان نہیں کی تو بھی اُستاد کو حقیر مت سمجھو، کسی وقت تنہائی میں ادب سے پوچھ لو، بھری مجلس میں استاد سے بحث کرکے اسے ہرانے کی نیت جس طالبِ علم کی ہوگی وہ علم سے محروم رہے گا۔ بعض طالبِ علموں کی یہ نیت ہوتی ہے کہ وہ حاشیہ اور شرح دیکھیں اور استاد کو سب کے سامنے ذلیل کرنے کی کوشش کریں، ایسے شاگرد کو کیا علم نصیب ہوگا۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخ میں ہے کہ انہوں نے ایک بھنگی سے پوچھا کہ کتّا کب بالغ ہوتا ہے؟ اُس بھنگی نے کہا کہ جب ٹانگ اُٹھاکر موتنے لگے۔ پھر جب وہ بھنگی سامنے آتا تھا تو امام صاحب اُس کے اکرام میں کھڑے ہوجاتے تھے کہ میں نے اس سے ایک علم سیکھا ہے اور آج قرآن و حدیث پڑھانے والوں کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟ تو علم میں برکت دو وجہ سے ہوتی ہے نمبر ایك: استاد کا ادب اور نمبردو: تقویٰ۔ اگر دو شاگرد ہیں اور دونوں باادب اور متقی ہیں تو پھر کس کے علم میں برکت ہوگی؟ جس میں ادب غالب ہوگا۔ حدیث مَا بُدِیَٔ بِشَیْءٍ الٰخ کی علمی تحقیق آج مدرسے کے تعلیمی سال کا آغاز ہے اور بدھ کا دن ہے، ایک مشہور روایت ہے: مَابُدِءَ بِشَیْءٍ یَّوْمَ الْاَرْبَعَاءِ اِلَّا تَمَّ 5؎بدھ کے دن جو کام شروع کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کو تکمیل تک پہنچا دیتے ہیں۔ اَلْمَصْنُوْعُ فِیْ مَعْرِفَۃِ الْحَدِیْثِ الْمَوْضُوْعِ میں مُلّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام صاحب فرماتے ہیں کہ لَمْ اَقِفْ لَہٗ عَلٰی اَصْلٍ یعنی اس حدیث کے اصل کا معلوم نہیں لیکن مُلّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی دوسری تصنیف الموضوعات الکبریٰ میں فرماتے ہیں کہ ہمارے ائمہ میں سے صاحبِ ہدایہ اس حدیث پر اعتماد کرتے ہیں۔ مُلّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں _____________________________________________ 5؎الموضوعات الکبرٰی:294،المکتب الاسلامی،بیروت