Deobandi Books

طلبہ و مدرسین سے خصوصی خطاب

ہم نوٹ :

8 - 34
میرے مرید ہو لہٰذا تم میرے شیخ کے لیے پانی لاؤ کیوں کہ پانی لانا اُسی کی ذمہ داری ہے جس سے کہا گیا ہے۔ اگر میں اپنے بیٹے مولانا مظہر میاں سے کہوں کہ پانی لاؤ۔ تو یہ اپنے بیٹے مولوی ابراہیم سے نہ منگوائیں، میرا حق تب ہی ادا ہوگا جب یہ خود پانی لے کر آئیں، اگر انہوں نے اپنے بیٹے سے کہہ دیا کہ ابراہیم میاں پانی لاؤ تو پھر میری محبت کا حق ادا نہیں ہوگا اور مجھے خوشی نہیں ہوگی، ابراہیم میاں نے مولانا مظہر میاں کو تو خوش کیا لیکن مولانا مظہر میاں نے مجھے کہاں خوش کیا؟
میرے شیخِ ثانی مولانا شاہ ابرارالحق صاحب کے چار بھائی انگریزی داں ہیں، ان میں سے ایک ہی بھائی یعنی مولانا شاہ ابرارالحق صاحب عالم ہوئے۔ مولانا شاہ ابرارالحق صاحب کے والد محمودالحق صاحب جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مجازِ صحبت بھی تھے انہوں نے ہردوئی کے ایک بہت بڑے جلسے میں فرمایا کہ اپنے بچوں کو عربی پڑھاؤ یعنی عالم بناؤ کیوں کہ جب میں کہتا ہوں کہ پانی لاؤ تو میرے انگریزی پڑھنے والے بیٹے تو نوکروں سے کہتے ہیں کہ ابّا کو پانی پلاؤ اور میرا بیٹا مولوی ابرارالحق جس کو میں نے حافظ بنایا ہے خود دوڑ کر پانی لاتا ہے اور مجھے پلاتا ہے۔ اب تم اس واقعے سے خود ہی سبق حاصل کرو کہ لڑکوں کو عالم اور حافظ بنانا چاہیے یا مسٹر بنانا چاہیے۔
طلبہ کی کثرتِ تعداد مطلوب نہیں
شروع میں جو آیت تلاوت کی گئی ہے اس آیت سے متعلق ایک مسئلہ عرض کروں گا لیکن اس سے پہلے ایک مسئلہ اور بتاتا ہوں کہ کبھی بھی تعداد پر نظر مت رکھو کہ اس مدرسے میں بہت کم طالبِ علم پڑھتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس دو شاگرد امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ پڑھتے تھے، آج یہ دو شاگرد سب پر بھاری ہیں۔ حضرت حاجی امداد اﷲ رحمۃاﷲ علیہ کے تین مرید مولانا قاسم نانوتوی، مولانا گنگوہی، مولانا اشرف علی تھانوی رحمہم اللہ پورے ہندوستان پر غالب تھے۔ لہٰذا تعداد کو مت دیکھو کہ اس مدرسے میں کم لڑکے پڑھتے ہیں اور فلاں مدرسے میں ایک ہزار لڑکے پڑھتے ہیں، بس جہاں بھی پڑھو محنت اور تقویٰ سے پڑھو۔ 
میں اپنے شیخ شاہ عبد الغنی رحمۃ اﷲ علیہ کے مدرسہ بیت العلوم میں پڑھتا تھا، میرا مدرسہ بالکل چھوٹی سی بستی میں تھا، تھانہ بھون بھی بالکل چھوٹی سی بستی میں ہے لیکن اُس چھوٹی 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بے ادبی اور بد تمیزی کی سزا کا ایک اہم اُصول 6 1
3 کسی کے جاہل یا بد دین ہونے کی شرعی دلیل 7 1
4 ادب و اکرام کی اہمیت 7 1
5 طلبہ کی کثرتِ تعداد مطلوب نہیں 8 1
6 علم کی برکت اور کثرت کا فرق 9 1
7 حدیثِ اسبالِ ازار میں خُیَلَاءً کی قید قیدِ احترازی نہیں، قیدِ واقعی ہے 10 1
8 پائجامہ ٹخنے سے نیچے لٹکانے کی وجہ کبر ہے 10 1
9 علم کا مطلوب علمِ نافع حاصل کرنا ہے 11 1
10 علم کی برکت کے حاصل کرنے کا طریقہ 12 1
11 حدیث مَا بُدِیَٔ بِشَیْءٍ الٰخ کی علمی تحقیق 12 1
12 تحصیلِ علم میں سب سے اہم چیز اصلاحِ نیت ہے 13 1
13 حفاظ کو تراویح پر اُجرت نہ لینے کی درد مندانہ تلقین 14 1
14 بعثتِ نبوی کے تین مقاصد 15 1
15 محبتِ للّٰہی کی بنیاد زبان و رنگ پر نہیں ہے 16 1
16 بعثتِ نبوی کے تین مقاصد: تلاوتِ قرآن،تعلیمِ کتاب اور تزکیہ 17 1
17 توکل علی اللہ کا ایک واقعہ 19 1
18 حضرت مولانا شاہ فضلِ رحمٰن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے استغنا کا ایک واقعہ 20 1
19 اخلاصِ نیت کی تلقین 21 1
20 قرآنِ پاک میں علماء کے بلند مقام کا تذکرہ 23 1
21 اصلاحِ نفس کی اہمیت 24 1
22 دنیا کا مزہ بھی اللہ کی محبت پر موقوف ہے 25 1
23 دنیا کی فانی نعمتوں کی مثال 25 1
24 گناہ اورتحصیلِ علم جمع نہیں ہو سکتے 26 1
25 ہڑتال اور اسٹرائک غیر شرعی عمل ہے 26 1
26 ادب کے ثمرات 26 1
27 طلبہ کو سر پر بال نہ رکھنے کی تلقین 29 1
28 طلبہ کو بُری صحبت سے بچنے کی نصیحت 30 1
29 ایک اہلِ دل کی ایک مدرسہ کے مہتمم سے درد مندانہ گزارش 32 1
Flag Counter