طلبہ و مدرسین سے خصوصی خطاب |
ہم نوٹ : |
|
میرے مرید ہو لہٰذا تم میرے شیخ کے لیے پانی لاؤ کیوں کہ پانی لانا اُسی کی ذمہ داری ہے جس سے کہا گیا ہے۔ اگر میں اپنے بیٹے مولانا مظہر میاں سے کہوں کہ پانی لاؤ۔ تو یہ اپنے بیٹے مولوی ابراہیم سے نہ منگوائیں، میرا حق تب ہی ادا ہوگا جب یہ خود پانی لے کر آئیں، اگر انہوں نے اپنے بیٹے سے کہہ دیا کہ ابراہیم میاں پانی لاؤ تو پھر میری محبت کا حق ادا نہیں ہوگا اور مجھے خوشی نہیں ہوگی، ابراہیم میاں نے مولانا مظہر میاں کو تو خوش کیا لیکن مولانا مظہر میاں نے مجھے کہاں خوش کیا؟ میرے شیخِ ثانی مولانا شاہ ابرارالحق صاحب کے چار بھائی انگریزی داں ہیں، ان میں سے ایک ہی بھائی یعنی مولانا شاہ ابرارالحق صاحب عالم ہوئے۔ مولانا شاہ ابرارالحق صاحب کے والد محمودالحق صاحب جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مجازِ صحبت بھی تھے انہوں نے ہردوئی کے ایک بہت بڑے جلسے میں فرمایا کہ اپنے بچوں کو عربی پڑھاؤ یعنی عالم بناؤ کیوں کہ جب میں کہتا ہوں کہ پانی لاؤ تو میرے انگریزی پڑھنے والے بیٹے تو نوکروں سے کہتے ہیں کہ ابّا کو پانی پلاؤ اور میرا بیٹا مولوی ابرارالحق جس کو میں نے حافظ بنایا ہے خود دوڑ کر پانی لاتا ہے اور مجھے پلاتا ہے۔ اب تم اس واقعے سے خود ہی سبق حاصل کرو کہ لڑکوں کو عالم اور حافظ بنانا چاہیے یا مسٹر بنانا چاہیے۔ طلبہ کی کثرتِ تعداد مطلوب نہیں شروع میں جو آیت تلاوت کی گئی ہے اس آیت سے متعلق ایک مسئلہ عرض کروں گا لیکن اس سے پہلے ایک مسئلہ اور بتاتا ہوں کہ کبھی بھی تعداد پر نظر مت رکھو کہ اس مدرسے میں بہت کم طالبِ علم پڑھتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس دو شاگرد امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ پڑھتے تھے، آج یہ دو شاگرد سب پر بھاری ہیں۔ حضرت حاجی امداد اﷲ رحمۃاﷲ علیہ کے تین مرید مولانا قاسم نانوتوی، مولانا گنگوہی، مولانا اشرف علی تھانوی رحمہم اللہ پورے ہندوستان پر غالب تھے۔ لہٰذا تعداد کو مت دیکھو کہ اس مدرسے میں کم لڑکے پڑھتے ہیں اور فلاں مدرسے میں ایک ہزار لڑکے پڑھتے ہیں، بس جہاں بھی پڑھو محنت اور تقویٰ سے پڑھو۔ میں اپنے شیخ شاہ عبد الغنی رحمۃ اﷲ علیہ کے مدرسہ بیت العلوم میں پڑھتا تھا، میرا مدرسہ بالکل چھوٹی سی بستی میں تھا، تھانہ بھون بھی بالکل چھوٹی سی بستی میں ہے لیکن اُس چھوٹی