طلبہ و مدرسین سے خصوصی خطاب |
ہم نوٹ : |
|
مفسرین کی ایک بات نقل کرتا ہوں۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو کسی چیز کی زیادتی کی دُعا کا حکم نہیں دیا سوائے علم کے، آپ پورے قرآن میں دیکھ لیں۔تو علم کی زیادتی اتنی بڑی نعمت ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آیت یَرفَعِ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙوَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ 10 ؎ کی تفسیرمیں فرماتے ہیں کہ اس آیت میں مؤمنین کے لیے رفعِ درجات کا ذکر آیا ہے کہ اللہ نے ایمان والوں کے درجات بلند کردیے لیکن اُن میں جو عالِم تھے اللہ تعالیٰ نے اُن کا الگ تذکرہ فرمایا ہے، یہ تخصیص بعد التَعْمیم ہے یَرۡفَعِ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ یہاں عام مؤمنین تو مراد ہیں ہی یعنی عالم بھی اور غیر عالم بھی لیکن عام مومنین کے رفعِ درجات کے بعد اللہ تعالیٰ نے وَالَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ کو الگ بیان فرمایا۔ اسی لیے مفسرین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے علماء کے درجات اتنے زیادہ بلند کیے ہیں کہ پہلے مؤمنین کا تذکرہ فرمایا اور بعد میں تخصیص بعد التَعْمیم کے طور پر اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ علماء کے مقام کو بیان فرمایا۔ لیکن عالم اُسی کو کہتے ہیں جس میں خشیت ہو کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اِنَّمَا یَخۡشَی اللہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا ؕ 11؎عالم کی لازمی صفت اللہ تعالیٰ کا خوف ہے۔جس طرح برف کے لیے برودت لازم ہے اور آگ کے لیے حرارت لازم ہے اسی طرح علم کے لیے خوف و خشیت لازم ہے اور یہ خوف متقین کی صحبت سے ملتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ دارالعلوم دیوبند کا چپڑاسی بھی ولی اللہ تھا اور آج علماء کی کیا حالت ہے، آج بزرگوں سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے مولوی بے عزت اور ذلیل ہور ہا ہے۔ اصلاحِ نفس کی اہمیت اس لیے دوستو! اپنے اصلاحِ نفس کے لیے کسی کو مربّی یا مشیر ضرور بناؤ، بیعت کو اتنی اہمیت مت دو، مربّی بناؤ، مصلح بناؤ یا مشیر بناؤ، اُن سے پوچھتے رہو اور مشورہ لیتے رہو پھر _____________________________________________ 10؎المجادلۃ:11 11؎فاطر:28