Deobandi Books

طلبہ و مدرسین سے خصوصی خطاب

ہم نوٹ :

17 - 34
دوسری زبان والا اللہ والا ہے تو اُس اﷲ والے سے کلمہ اور ایمان کی بنیاد پر محبت کرنا تم پر زیادہ واجب ہے۔ اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ یہ ہمارا ملکی بھائی ہے، جبکہ وہ نماز بھی ٹھیک سے نہیں پڑھتا اور اﷲ کی نافرمانی بھی کرتا ہے مگر پھر بھی وہ اس کے بارے میں یہی کہتا ہے کہ یہ اپنی زبان والا ہے تو پھر میں یقین سےنہیں کہہ سکتاکہ پتا نہیں اس کا خاتمہ ٹھیک بھی ہوگا یا نہیں،کیوں کہ مجھے حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے یہ روایت پہنچی ہے کہ حضرت نے سب کے سامنے ایک خط پڑھا جس میں لکھا تھا کہ ہمارا دل آپ کی ملوقوت (ملاقات) کو چاہتا ہے تو ایک صاحب نے کچھ حقارت سے کہاکہ حضرت! یہ تو کوئی بنگالی معلوم ہوتا ہے تو حضرت نے اس کی بیماری کو سمجھ لیا، آخر وہ حکیم الامت تھے، تو حضرت نے فرمایا کہ جاؤ! پھر سے کلمہ پڑھو کیوں کہ تم نے اس وقت کلمہ کی بنیا دپر اکرامِ مؤمن نہیں کیا، تم نے زبان کی بنیاد پر مومن کی توہین کی ہے جس سے اس کی حقارت ظاہر ہوئی اور کسی مؤمن کو زبان کی وجہ سے حقیر سمجھنا بہت خطرناک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زبان اور رنگ کو اپنی نشانی بیان کیا ہے:
وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِکُمۡ وَ اَلۡوَانِکُمۡ ؕ7؎
قرآن اعلان کرتا ہے کہ یہ جو کوئی گورا ہے اور کوئی کالا ہے تو زبان اور رنگ کا یہ اختلاف ہماری نشانی ہے، یہ تو اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کی علامت اور ذریعۂ معرفت ہے اور تم نے ذریعۂ معرفت کو ذریعۂ قتل بنا رکھا ہے۔ آج اسی مرض کی وجہ سے دُنیا پریشان ہے اور ہر طرف قتل و خون ہورہا ہے، اسی چیز کو مٹانے کے لیے خانقاہیں بنی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کا تزکیہ فرمایا اور اتنا تزکیہ فرمایا کہ صحابہ کے قلوب میں مال تو کیا جان کی محبت بھی نہیں رہی۔
جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے شاہِ ایران کو خط لکھا اور اسے جنگ کی دھمکی دی تو مشکوٰۃ شریف کی کتاب الجہاد میں یہ جملہ نقل ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جتنا تم لوگ شراب سے محبت کرتے ہو اتنی ہم موت سے محبت کرتے ہیں۔ یہ ہے جان دینے کا جذبہ! ایمان کا صحیح حق یہی ہے، کلمہ کی تعریف یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ پر جان دینے کی راہوں کو بے چینی سے تلاش کرنا۔
بعثتِ نبوی  کے تین مقاصد: تلاوتِ قرآن،تعلیمِ کتاب اور تزکیہ
تو تین شعبے ہوگئے، تلاوتِ قرآنِ پاک کے لیے اللہ تعالیٰ نے مکتب قائم کردیے،
_____________________________________________
7؎    الروم:22
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بے ادبی اور بد تمیزی کی سزا کا ایک اہم اُصول 6 1
3 کسی کے جاہل یا بد دین ہونے کی شرعی دلیل 7 1
4 ادب و اکرام کی اہمیت 7 1
5 طلبہ کی کثرتِ تعداد مطلوب نہیں 8 1
6 علم کی برکت اور کثرت کا فرق 9 1
7 حدیثِ اسبالِ ازار میں خُیَلَاءً کی قید قیدِ احترازی نہیں، قیدِ واقعی ہے 10 1
8 پائجامہ ٹخنے سے نیچے لٹکانے کی وجہ کبر ہے 10 1
9 علم کا مطلوب علمِ نافع حاصل کرنا ہے 11 1
10 علم کی برکت کے حاصل کرنے کا طریقہ 12 1
11 حدیث مَا بُدِیَٔ بِشَیْءٍ الٰخ کی علمی تحقیق 12 1
12 تحصیلِ علم میں سب سے اہم چیز اصلاحِ نیت ہے 13 1
13 حفاظ کو تراویح پر اُجرت نہ لینے کی درد مندانہ تلقین 14 1
14 بعثتِ نبوی کے تین مقاصد 15 1
15 محبتِ للّٰہی کی بنیاد زبان و رنگ پر نہیں ہے 16 1
16 بعثتِ نبوی کے تین مقاصد: تلاوتِ قرآن،تعلیمِ کتاب اور تزکیہ 17 1
17 توکل علی اللہ کا ایک واقعہ 19 1
18 حضرت مولانا شاہ فضلِ رحمٰن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے استغنا کا ایک واقعہ 20 1
19 اخلاصِ نیت کی تلقین 21 1
20 قرآنِ پاک میں علماء کے بلند مقام کا تذکرہ 23 1
21 اصلاحِ نفس کی اہمیت 24 1
22 دنیا کا مزہ بھی اللہ کی محبت پر موقوف ہے 25 1
23 دنیا کی فانی نعمتوں کی مثال 25 1
24 گناہ اورتحصیلِ علم جمع نہیں ہو سکتے 26 1
25 ہڑتال اور اسٹرائک غیر شرعی عمل ہے 26 1
26 ادب کے ثمرات 26 1
27 طلبہ کو سر پر بال نہ رکھنے کی تلقین 29 1
28 طلبہ کو بُری صحبت سے بچنے کی نصیحت 30 1
29 ایک اہلِ دل کی ایک مدرسہ کے مہتمم سے درد مندانہ گزارش 32 1
Flag Counter