طلبہ و مدرسین سے خصوصی خطاب |
ہم نوٹ : |
|
نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ والوں کے خادموں کو بھی مستغنی ہونا چاہیے۔ پھر گورنر نے پوچھا کہ آپ کے مہمانوں اور طلبہ کاخرچہ کیسے چلتا ہے؟ شاہ صاحب نے فرمایا کہ ایک ہی دفعہ میں سارے جواب نہیں دیے جاتے، پھر کبھی آنا تو اس کا جواب دوں گا۔ چھ مہینے کے بعد وہ دوبارہ آیا اور ایک ہزار اشرفیاں پیش کیں، حضرت نے اُن کو پھینک دیا، وہ پیر پکڑ کر کہنے لگا کہ حضرت! قبول کر لیجیے تب حضرت نے قبول کیا۔ پھر اُس نے پوچھا کہ حضرت! خرچہ کیسے چلتا ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ جیسے تم نے میرے پاؤں پکڑ کر مجھے پیسہ دینے کوشش کی ہے، ایسے ہی اللہ تعالیٰ مال داروں کی گردن مروڑ مروڑ کر پیر پکڑوا کر دلواتے ہیں۔ دوستو! اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر علمِ دین پڑھو۔ اگر اتنا بھروسہ نہیں ہے تو بہتر ہے کہ سبزی بیچو، قصائی بن جاؤ، کپڑے کی مل میں نوکری کرلو لیکن اللہ کے دین کو بدنام نہ کرو۔ اخلاصِ نیت کی تلقین تو سب سے پہلے میرے تمام دوست، تمام اساتذہ، تمام طلبۂ کرام نیت کو درست کرلیں کہ اللہ کی رضا کے لیے پڑھانا ہے، رہ گیا پیٹ تو درس و تدریس کو ربّ نہ مانو، کہو کہ ربّ العالمین اللہ ہے، پالنے والا اللہ تعالیٰ ہے وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَی اللہِ رِزۡقُہَا 8؎ کی تفسیر دیکھ لیں۔ ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ذرا سا خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ ساری دنیا کو کیسے پالتے ہیں فوراً حکم ہوا کہ فلاں چٹان پر عصا ماریے، تین دفعہ عصا مارنے پر چٹان تین ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی، تیسری چٹان میں ایک کیڑا نکلا، اُس کے منہ میں ہرا پتا تھا، اب بتائیے! وہ کہاں سے روزی پارہا ہے جبکہ پتھر میں کوئی سوراخ بھی نہیں تھا۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے وَمَا مِنْ دَآ بَّۃٍ کی اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ وہ کیڑا یہ وظیفہ پڑھ رہا تھا: سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ وَیَسْمَعُ کَلَامِیْ وَیَعْرِفُ مَکَانِیْ وَیَذْکُرُنِیْ وَلَا یَنْسَانِیْ 9؎پاک ہے وہ ذات جو مجھے دیکھ رہی ہے، اور میری بات سن رہی ہے اور وہ میرے رہنے کی جگہ کو _____________________________________________ 8؎ھود:2 9؎روح المعانی :12/2، (6)، داراحیاء التراث، بیروت