طلبہ و مدرسین سے خصوصی خطاب |
ہم نوٹ : |
|
مایوس بھی نہ ہوجاؤ، فوراً دو رکعت نمازِ توبہ پڑھو اور اللہ سے روؤ اور آیندہ کے لیے گناہ نہ کرنے کا پکا ارادہ کرلو۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک نظر خراب ہونے پر چار رکعات صلوٰۃِ توبہ کے نفل پڑھو اور کچھ روپیہ خیرات کرو پھر شیطان پیچھا چھوڑ دے گا۔ شیطان کہے گا کہ اس سے بدنگاہی ہوئی،اس نے اللہ سے توبہ کرلی، توبہ سے تو خطاکی معافی ہوگئی لیکن پھر اس نے اپنے نامۂ اعمال میں چار رکعات نفل بھی بڑھوالیے اور خیرات کا ثواب بھی حاصل کرلیا تو جب وہ اپنا بزنس فیل دیکھے گا تو خود ہی پیچھا چھوڑ دے گا لہٰذا اپنی جوانی کو اللہ پر فدا کرو۔ طلبہ کو سر پر بال نہ رکھنے کی تلقین اب ایک اعلان سن لیجیے کہ یہاں پر جتنے لوگ موجود ہیں سب کے سب سر منڈوادیں۔ البتہ جو اساتذہ اور طلبہ شادی شدہ ہیں اُن کی معافی ہے۔ تو فاسقین کی وضع سے بچو اور صالحین کی وضع میں رہو۔ آج کل جتنے ہِپِّی ہیں اُن کے بال گردن تک ہیں، تو اگر میری خانقاہ میں رہنا ہے تو سب کے سب سر منڈوادیں،یہ ایسا حکم ہے کہ اس کے لیے تین دن کا موقع دے رہا ہوں، اگر میں نے تین دن کے بعد کسی کے سر پر بال دیکھے اور سر منڈا ہوا نہیں دیکھا تو اُس کا اِخراج کردیا جائے گا، اگرسر منڈوانے میں چپت کھانے کا خطرہ ہے تو مشین لگوادیں لیکن محلقین کا درجہ زیادہ ہے، پہلے مُحَلِّقِیْن ہیں بعد میں مُقَصِّرِیْن ہیں، یہ ہمارے بزرگوں کی بات ہے۔حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں تمام طلبہ کےسر منڈوادیے جاتے تھے اور جن اساتذہ کی شادی نہیں ہوئی اُنہیں بال رکھ کر کسی کو دکھانے کی کیا ضرورت ہے؟ سر منڈوانے سے آدھا نفس مرجاتا ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مور اپنے پَر نوچ نوچ کر پھینک رہا تھا، کسی نے کہا کہ اس طرح تو تُو حسین نہیں رہے گا، تیرا سارا حسن ان ہی پروں کی وجہ سے ہے، اُس نے کہا کہ ان پروں پر لعنت بھیجو، سارے شکاری ان پروں ہی کی وجہ سے جنگل میں بندوق لے کر بیٹھے رہتے ہیں، جب میں پر نوچ دوں گا اور کھوسٹ ہوجاؤں گا، شکل بگڑ جائے گی تو آرام سے سوؤں گا پھر کوئی میرا پیچھا نہیں کرے گا لہٰذا سر منڈوا کر ٹیڈیوں سے بے فکر ہوجاؤ، ٹیڈی بھی دیکھ کر کہے گی کہ ہزار سال پرانا مُلّا قبرستان سے نکل کر آرہا ہے۔ تو سر منڈوادیجیے ان شاء اللہ