طلبہ و مدرسین سے خصوصی خطاب |
ہم نوٹ : |
|
کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور کسی کو یہ کہنے کابھی حق نہیں ہے کہ میں کبر سے بَری ہوں۔ لہٰذا حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے امداد الفتاویٰ میں فرمایا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر کبر ہو تو پائجامہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانا منع ہے ایسے لوگ دُہرے مجرم ہیں،ایک تو کبر کا جرم دوسرے پائجامہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کا جرم،کیوں کہ کبر کی نفی کرنابھی خود کبر ہی ہے ؎ گفتی بُتِ پندار شکستم رُستم ایں بت کہ تو پندارشکستی باقی است یعنی تُو کہتا ہے کہ میں نے تکبر کو مٹادیا اور میں تکبر سے چھوٹ گیا، میں نے تکبر کے بُت کو توڑ دیا ہے حالاں کہ یہ دعویٰ کہ میں نے بت کو توڑ دیا خود ایک مستقل بت ہے جو ابھی باقی ہے۔ علم کا مطلوب علمِ نافع حاصل کرنا ہے تو ایسے ہی یہ لوگ گھر میں جھوٹ سے پرہیز نہیں کرتے، ماں باپ سے لڑائی بھی کرتے ہیں، بیوی نے ذرا سی بات پر شکایت کردی تو ماں باپ پر ایک دم غصہ ہوگئے حالاں کہ جناب حافظ جی بھی ہیں اور مولانا صاحب بھی ہیں اور ماں باپ کو گالیاں دے رہے ہیں۔ اگر گھر پر جاکر یہی سب کچھ کرنا ہے تو ایسا علم حاصل کرنے سے کیا فائدہ؟ مدرسے میں پڑھنے سے کیا فائدہ؟ اگر مدرسے سے یہ حاصل ہو کہ آپ ماں باپ سے لڑیں، گھر میں شرعی پردہ نہ ہو، اپنی بھابھیوں سے نظر کی حفاظت نہ ہو اور راہ چلتے لڑکیوں کو بُری نظر سے دیکھ رہے ہیں تو دوستو! ایسے علم سے تو اللہ تعالیٰ حفاظت میں رکھے۔ بس کیا کہوں، رونا آتا ہے، اگر حافظ اور مولوی بننا ہے تو اللہ والے بھی بنو ورنہ ہم سے وہ جاہل بہتر ہے جو تقویٰ سے رہتا ہے۔ علم کا حاصل کیا ہے؟ اصل میں ہم طالبِ علموں کا پورا نام طالبِ علم و عمل تھا، اب طالبِ علم مشہور ہوگیا اور عمل محذوف ہوگیا کیوں کہ عمل علم پر موقوف ہے اور علم کے بغیر عمل ہو ہی نہیں سکتا لیکن مقصود تو عمل ہے، جیسے سوئی گیس لگوائی، گوشت لائے، روٹی پکائی تو مقصود تو کھانا ہے لیکن اگر ایک شخص گوشت اور روٹی پکانے کے بعد بھی کھاتا نہیں ہے تو آپ اس کو بے وقوف اور پاگل کہیں گے لہٰذا علم اسی لیے حاصل کرو کہ اُس پر عمل کرنا ہے۔