طلبہ و مدرسین سے خصوصی خطاب |
ہم نوٹ : |
میں نے چھوا بھی نہیں۔ ایک دن اُس نے دیکھا کہ ایک چوہا آیا، چوہے نے بوتل کے اندر اپنا منہ ڈالا لیکن بوتل کا منہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے چوہے کا منہ اندر نہیں جاسکا، پھر چوہے نے اپنی دُم بوتل کے اندر ڈالی، اُس کے بعد دُم نکال کر اُس کو چوسا، اس طریقے سے چوہے نے بوتل خالی کردی، تو پیٹ پالنے کا کام تو چوہا بھی کرسکتا ہے۔ اگر کوئی بحری جہاز سے حج کرنے کے لیے جاتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ میں اس نیت سے حج کرنے جارہا ہوں کہ سمندر دیکھوں گا تو بولو! یہ شخص پاگل ہے یا نہیں؟ اگر یہی شخص اللہ کی رضا کے لیے کعبہ شریف کو دیکھنے کی نیت کرلے تو کیا سمندر نہیں دیکھے گا؟ جو چیز بلانیت ملتی ہے اُس کی نیت کیوں کرتے ہو، دنیا تو بلانیت ملتی ہے اُس کی نیت نہ کرو، اللہ کی رضا کے لیے پڑھو اور پڑھاؤ، جب اللہ راضی ہوگا تو بھوکا نہیں مارے گا۔ جو کافروں کو روٹی دیتا ہے، جو اپنے دُشمنوں کو روٹی دیتا ہے وہ اپنے دوستوں، حافظوں اور مولویوں کو روٹی نہیں دے گا؟ توکل علی اللہ کا ایک واقعہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے وعظ میں بیان فرماتے ہیں کہ ایک حافظ نے کہا کہ خدا کی قسم! میں مرغ کے علاوہ کوئی کھانا نہیں کھاؤں گا۔ وہ ایک گاؤں میں گیا اور نمازِ عشاء پڑھ کر لیٹ گیا۔ امام صاحب نے پوچھا کہ کھانا آگیا، کھانا کھاؤگے؟ اُس نے چادر اوڑھی ہوئی تھی، چادر میں سے منہ نکال کر پوچھا کہ امام صاحب کیا چیز ہے؟ امام صاحب نے کہا کہ بکری کا شوربہ اور چپاتی ہے۔ اُس نے کہا کہ ہم یہ نہیں کھاتے، ہم تو مرغ کھاتے ہیں، ہم نے اللہ تعالیٰ سے قسم اُٹھائی ہوئی ہے۔ امام صاحب نے کہا کہ مسافر صاحب! بھوکوں مر جاؤگے، اُس نے کہا کہ اگر میں بھوکوں مروں گا تو آپ کو کیا ہے، آپ میرا جنازہ پڑھا دینا۔ اتنے میں ایک گھنٹے بعد ایک بڑھیا نے دروازہ کھٹکھٹا کر پوچھا کہ کوئی مسافر ہے؟ میں اُس کے لیے مرغ لے کر آئی ہوں حالاں کہ وہ اس مسافر کے لیے بالکل نئی بستی تھی، کوئی جان پہچان نہیں تھی، پھر بھی وہ بڑھیا اُس مسافر کے لیے مرغ لے کر آئی، مسافر نے مرغ کھالیا اور کہا کہ ہاں! یہ میری غذا ہے۔ اب امام صاحب نے سوچا کہ شاید بڑھیا اتفاق سے آگئی لیکن دوسرے دن پھر مرغ لے آئی، وہ مسافر چالیس دن تک ٹھہرا اور چالیس روز تک مرغ کھاتا رہا، پھر وہاں سے چلتا بنا۔ اس کے جانے کے بعد امام صاحب