Deobandi Books

طلبہ و مدرسین سے خصوصی خطاب

ہم نوٹ :

27 - 34
تھا، یہ ایک گم نام مدرسہ ہے، اُس مدرسہ کا کوئی نام بھی نہیں جانتا لیکن آج حضرت کی دعاؤں کی برکت سے کوئی مجھ سے نہیں پوچھتا کہ آپ کی سند کہاں ہے؟ میں یہی کہتا ہوں  یَاسَنَدَ مَن لَّا سَنَدَ لَہٗ  حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے نہیں پوچھا تھا کہ آپ کے پاس کس ادارے کی سند ہے؟ نہ مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اور نہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے حاجی صاحب سے سند کے بارے میں پوچھا تھا ،کیوں کہ وہاں تو اخلاق کی اصلاح کرانی تھی لیکن اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ علمائے بنگلہ دیش کہتے ہیں کہ جب آپ کی تقریر ہوتی ہے تو ہم اپنا علم بھول جاتے ہیں۔محدِّث لال باغ مولانا عبدالمجید صاحب کہتے ہیں کہ جب میں آپ کا بیان سنتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں آپ کے سامنے بالکل جاہل ہوں۔یہ ان کی شرافتِ طبع ہے۔یہ ہے اپنے کو مٹانا۔
جس شخص نے اپنے استادوں کی خوب خدمت کی اللہ تعالیٰ نے اُس سے علم کا کام لیا۔ مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک عالم اپنے گاؤں گیا اور اپنے شاگردوں کو بلایا۔ ایک شاگرد آگیا دوسرا شاگرد نہیں آیا کیوں کہ وہ ہل جوت رہا تھا، استاد کو جب علم ہوا کہ دوسرا شاگرد ہل جوتنے کی مصروفیت کی وجہ سے نہیں آیا تو اُن کو غم ہوا اور پہلا شاگرد جو استاد کے بلانے پر سارے کام چھوڑ کر فوراً بھاگ کر آگیا اُس سے بڑے بڑے علماء پیدا ہوئے۔ تو جس نے اپنے مشایخ اور اساتذہ کا ادب کیا اللہ تعالیٰ نے اُس سے کام لیا اور جس نے بدتمیزی اور استغنا کیا اُس سے علم کی برکت چھین لی گئی۔
تو اپنے بڑوں کا ادب کرو اور ان کے آگے کبھی اکڑو مت، یہ مت کہو کہ میری روزی تو اللہ دیتا ہے مجھے ان کا ادب کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ورنہ تو ابّا سے بھی ایسا کہو گے کہ مجھے تو اللہ نے کھلایا ہے آپ نے تھوڑی کھلایا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مہتمم کہاں سے کھلاتا ہے؟ یہ تو چندہ لے کر کھلاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ابّا سے بھی ایسا کہہ دو کہ آپ نے ہمیں کہاں سے کھلایا ہے؟ یہ تو اللہ نے روزی دی ہے۔ اگر تم نے اپنے باپ کا کھایا تو مہتمم کا بھی کھایا کیوں کہ مہتمم کو خدا ہی دیتا ہے اور ابّا کو بھی خدا ہی دیتا ہے۔ لہٰذااس منطق سے تو باپ کا بھی شکریہ ختم ہوگیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ واسطۂ نعمت کا بھی شکر ادا کرو:
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بے ادبی اور بد تمیزی کی سزا کا ایک اہم اُصول 6 1
3 کسی کے جاہل یا بد دین ہونے کی شرعی دلیل 7 1
4 ادب و اکرام کی اہمیت 7 1
5 طلبہ کی کثرتِ تعداد مطلوب نہیں 8 1
6 علم کی برکت اور کثرت کا فرق 9 1
7 حدیثِ اسبالِ ازار میں خُیَلَاءً کی قید قیدِ احترازی نہیں، قیدِ واقعی ہے 10 1
8 پائجامہ ٹخنے سے نیچے لٹکانے کی وجہ کبر ہے 10 1
9 علم کا مطلوب علمِ نافع حاصل کرنا ہے 11 1
10 علم کی برکت کے حاصل کرنے کا طریقہ 12 1
11 حدیث مَا بُدِیَٔ بِشَیْءٍ الٰخ کی علمی تحقیق 12 1
12 تحصیلِ علم میں سب سے اہم چیز اصلاحِ نیت ہے 13 1
13 حفاظ کو تراویح پر اُجرت نہ لینے کی درد مندانہ تلقین 14 1
14 بعثتِ نبوی کے تین مقاصد 15 1
15 محبتِ للّٰہی کی بنیاد زبان و رنگ پر نہیں ہے 16 1
16 بعثتِ نبوی کے تین مقاصد: تلاوتِ قرآن،تعلیمِ کتاب اور تزکیہ 17 1
17 توکل علی اللہ کا ایک واقعہ 19 1
18 حضرت مولانا شاہ فضلِ رحمٰن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے استغنا کا ایک واقعہ 20 1
19 اخلاصِ نیت کی تلقین 21 1
20 قرآنِ پاک میں علماء کے بلند مقام کا تذکرہ 23 1
21 اصلاحِ نفس کی اہمیت 24 1
22 دنیا کا مزہ بھی اللہ کی محبت پر موقوف ہے 25 1
23 دنیا کی فانی نعمتوں کی مثال 25 1
24 گناہ اورتحصیلِ علم جمع نہیں ہو سکتے 26 1
25 ہڑتال اور اسٹرائک غیر شرعی عمل ہے 26 1
26 ادب کے ثمرات 26 1
27 طلبہ کو سر پر بال نہ رکھنے کی تلقین 29 1
28 طلبہ کو بُری صحبت سے بچنے کی نصیحت 30 1
29 ایک اہلِ دل کی ایک مدرسہ کے مہتمم سے درد مندانہ گزارش 32 1
Flag Counter