تعلیم و تزکیہ کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
لاہوری کے معنیٰ ہیں لاہور والا، ایسے ہی آدمی کے معنیٰ ہیں آدم والا، یعنی جو اپنے بابا آدم علیہ السلام کی راہ اختیار کرتا ہے، جب اُس سے خطا ہوتی ہے تو رَبَّنَا ظَلَمْنَا کہہ کر رونا شروع کردیتا ہے۔ جس ظالم کو اپنے گناہوں پر رونا اور استغفار و توبہ نصیب نہ ہو وہ آدمی کہاں ہے؟ کیوں کہ بابا آدم کی خاص بات یہی تو تھی کہ رَبَّنَا ظَلَمْنَا کہہ کر اُنہوں نے اپنی دوری کو حضوری سے تبدیل کرلیا۔ فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ کی تفسیر علامہ آلوسی السید محمود بغدادی رحمۃاللہ علیہ ’’روح المعانی‘‘ میں فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ 2؎ کی تفسیر فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کو جب اللہ نے دنیا میں بھیجا، اور کیسے بھیجا؟ فرمایا قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا 3؎ اُتر جاؤ۔ علامہ آلوسی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ھُبُوْطْ وہ نزول اور سفر ہے جس کے بعد پھر وطن واپس آنا پڑے۔ معلوم ہوا کہ یہ عارضی سفر ہے، حضرت آدم علیہ السلام پھر جنت میں جائیں گے اور جتنے مومنین ہیں وہ بھی جائیں گے۔ ھُبُوْطْ کے لغوی معنیٰ لکھے ہیں کہ جو کسی کونے میں پھینک دیا گیا ہو یا دور ڈال دیا گیا ہو، پھر وہاں سے بلایا جائے۔ اور فرمایا کہ تَلَقِّیْ جو مصدر ہے، اس کا استعمال اہلِ عرب میں اُس وقت ہوتا تھا جب کوئی دوست بہت دن بعد آتا تھا، یعنی جب کوئی بہت دیر سے اور بہت دور سے آتا تھا تب کہتے تھے فَتَلَقَّاہُ بِمَرْحَبًا چلو بھئی اُن سے ملاقات کرو۔ اور قرآنِ پاک کا نزول اللہ تعالیٰ نے عرب کے محاورات پر فرمایا۔ پس فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ میں تَلَقّٰی کا استعمال بتاتا ہے کہ فَاِنَّ اٰدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَانَ فِیْ ذٰلِکَ الْوَقْتِ فِیْ مَقَامِ الْبُعْدِ 4؎ اُس وقت جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت آدم علیہ السلام مقامِ بُعد میں تھے،لیکن فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ یعنی حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کلمات القا ہوئے، جن کی _____________________________________________ 2؎البقرۃ:37 3؎البقرۃ:38 4؎روح المعانی:237/1،البقرۃ(37)،داراحیاء التراث، بیروت