تعلیم و تزکیہ کی اہمیت |
ہم نوٹ : |
|
بخاری شریف پڑھاسکتے ہیں توا پنا تزکیہ بھی خود کرسکتے ہیں۔ حکیم الامت نے فرمایا: مولانا! تزکیہ فعل لازم ہے یا فعل متعدی ہے؟ بس کہنے لگے سمجھ گیا۔ فعل لازم تو اپنے فاعل پر تمام ہوجاتا ہے، فعل متعدی اپنے فاعل پر تمام نہیں ہوسکتا۔ جب ایک مزکِّی ہو ایک مُزکّٰی ہو، اب تزکیہ کا فعل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ کَانُوْا یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ یہ آیت نازل نہیں ہوئی کہ صحابہ خود اپنا تزکیہ کرتے تھے، بلکہ فرمایا: یُزَکِّیْھِمْ ہمارے نبی صحابہ کا تزکیہ کرتے ہیں۔ مکاتبِ قرآنیہ کے قیام کا ثبوت جو آیت تلاوت کی گئی اس سے بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تین مقاصد ثابت ہوتے ہیں یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ ہمارے نبی صحابہ پر آیات کی تلاوت کرتے ہیں۔ چناں چہ ساری دنیا میں جہاں جہاں قرآن ِپاک کے مکاتب ہیں، جہاں حفظ و ناظرہ اور قرأت و تجوید پڑھائی جاتی ہے، سب اس آیت کے مظاہر ہیں اور ان سے مقصدِ بعثتِ نبوت کا ایک حق ادا ہورہا ہے۔ تلاوت کے متعلق امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ قرآن پاک کے علاوہ جتنی کتابیں نازل ہوئیں توریت، زبور، انجیل ان کے ساتھ تلاوت کی لغت کا استعمال جائز نہیں ہے۔ دیکھ لو تفسیر مفردات القرآن۔ فرماتے ہیں کہ تلاوت کا لفظ صرف قرآنِ پاک کے لیے خاص ہے۔17؎یہ اس کلام اللہ کی عظمت ہے،کیوں کہ اسے قیامت تک قائم رکھنا ہے، اس کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے، لہٰذا جو قرآنِ پاک کے مدرسے قائم کرتے ہیں، جو اپنے بچوں کو حافظ بناتے ہیں، جو ان مدارس سے جانی و مالی تعاون کرتے ہیں سب اللہ تعالیٰ کے سرکاری کام کے ممبر ہیں۔ پس قرآنِ مجید کی عظمتِ شان کے سبب تلاوت کا لفظ صرف قرآنِ پاک کے لیے خاص ہے، سابقہ کُتبِ آسمانی کے لیے جائز نہیں۔ مدارسِ علمیہ کے قیام کا ثبوت یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ سے دارالعلوم کا حق ادا ہورہا ہے، دارالعلوم یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ _____________________________________________ 17؎ مفردات غرائب القراٰن للاصفہانی:75/1، کتاب التاء،موقع یعسوب